top of page

بی این ایم ماہانہ آن لائن اجلاس: یوم آسروخ اور یوم برمش کی مناسبت سے مقررین کا خطاب۔


بلوچ نیشنل موومنٹ کا ماہانہ آنلائن اجلاس بی این ایم ڈائسپورہ کے آرگنائزر ڈاکٹر نسیم کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ بی این ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل استاد بابل لطیف دیوان کے مہمان خاص تھے۔اجلاس سے بی این ایم جرمنی زون کے جنرل سیکریٹری اصغر بلوچ اور بی این ایم کینیڈا زون کے سینئرر رکن ڈاکٹر ظفر بلوچ نے خطاب کیا۔ بی این ایم برطانیہ زون کے صدر حکیم بلوچ نے موڈیریٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اجلاس میں بلوچستان میں ایٹمی تابکاری، سانحہ ڈنک اور آواران میں پیش آنے والے نورجان کی شہادت پر مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔


آنلائن اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ ہندوستانی نیوکلئیر ٹیسٹ کے دو ہفتوں بعد ہی پاکستان کا بلوچستان سرزمین پر تمام حفاظتی تدابیر کو پس پُشت ڈال کر بلوچستان میں ایٹمی دھماکے کرکے ہندوستان سمیت دنیا کو کوئی پیغام دینے کی کوشش کی،لیکن وہ بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کو نظر انداز کرگئے۔


انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ بلوچستان کو پاکستانی ریاست نے ایک تجربہ گاہ بنا رکھا ہے۔ یہاں ایٹمی تابکاریوں کے سبب بیماریاں اور نقصانات عام لوگوں، چرند پرند، جنگلات اور پانیوں تک پھیل گئے ہیں۔ لیکن پاکستانی ریاست نے ایک تحقیقاتی ٹیم کو بھی بلوچستان روانہ کرنا گوارا نہ کیا۔


انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت کے وزیراعلی بلوچستان کے مطابق انہیں بھی ایٹمی دھماکوں بابت معلومات بی بی سی سے موصول ہوئی تھیں۔ اگر اس بات میں سچائی نہ بھی ہو، مگر یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بلوچستان کو ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ کبھی ایٹمی دھماکوں کی صورت میں تو کبھی ڈیتھ سکواڈ کی صورت میں اور کبھی بلوچ نسل کشی کی صورت میں بلوچستان میں تجربات جاری ہیں۔


آج پورے پاکستان میں یوم تکبیر منایا جارہا ہے جبکہ بلوچستان میں یوم آسروخ منایا جارہا ہے۔ اس واقعے سے پیدا ہونے والی اثرات سے کینسر، جِلدی بیماریاں، پری میچیور بچوں کی پیدائش اور دیگر جسمانی و ذہنی بیماریاں رونما ہو رہی ہیں۔


ڈاکٹرنسیم بلوچ نے مزید کہا کہ بلوچستان اس وقت تک ایک تجربہ گاہ رہے گا جب تک بلوچ قوم ایک آزاد ریاست کے مالک نہیں ہوتے۔ مقبوضہ بلوچستان میں اٹھائیس مئی جیسے واقعات، چھبیس مئی جیسے واقعات جہاں نومولود برمش کو زخمی کرکے انکی والدہ ملکناز کو شہید کردیا جاتا ہے، یہ دُہرائے جائیں گے۔


ہماری کوشش یہ ہو کہ ہم آج سے دس سال یا بیس سال بعد جب بھی ایک بلوچ آزاد سماج میں اس دن کو یاد کیا جائیگا تو دنیا بھر میں جیسے بنگلہ دیشی طلبا کی جدوجہد کے بدولت اکیس فروری مادری زبانوں کا عالمی دن کے طور پر بنگلہ دیشی طلبا کی یاد میں منائی جاتی ہے تو دنیا بچوں پر مظالم کو برمش ڈے کے نام سے یاد رکھے۔


اس کے لئے اہم ہے کہ ہم اپنے شہیدوں اور قربانی دینے والے لوگوں کو یاد کریں اور انکی قربانیوں پر روشنی ڈالتے رہیں۔ وگرنہ پھر یہ تسلسل اسی طرح چلتا رہیگا۔ کبھی برمش تو کبھی آواران میں نورجان کی شکل کالونیل پاور آپ پر ظلم کرتا رہیگا۔ نورجان جنہیں دوہزار چودہ میں آواران میں ایک ذکرخانہ پر حملہ کرکے زخمی کردیا گیا تھا اور اب انہیں ان کے فرزند کے ہمراہ جبری گمشدہ کرکے اس لئے انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنی مرضی سے کرائی ہے۔


نورجان بلوچ نے اپنی غیرت اور ننگ کے تحفظ کی خاطر اپنی زندگی قربان کردینے کا انتخاب کیا لیکن اپنی بیٹی کو ریاست کے سامنے پیش نہیں کیا۔ اس ذلت سے بچنے کیلئے اس نے ایک درخت سے پھانسی لگاکر خودکشی کرنے کو بہتر سمجھا۔


ڈاکٹر نسیم نے مزید کہا کہ نورجان نے ریاست کو یہ ثابت کردیا کہ آپ جس قدراپنی ظلم اور بربریت آزماتے رہیں لیکن موت کا فیصلہ میں خود کرونگا۔ جیسا کہ ہم نے اکثر ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی تقاریر میں سنا ہے کہ موت کا فیصلہ میرے اختیار میں ہے۔ شہید نورجان نے اس قول پرعملی طورپرعمل کیا ہے۔


اجلاس سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے سینٹرل ڈپٹی سیکریٹری جنرل بابل لطیف بلوچ نے اپنے خطاب میں کہا کہ نورجان بلوچ کا واقعہ ہو یا برمش ڈے کا واقعہ، یہ ریاست کی جانب سے بلوچ قوم کو اپنی تحریک سے دور کرنے کی کوششیں ہیں۔ ریاست بلوچستان کے کونے کونے میں انسانیت سوز مظالم میں ملوث ہے، لیکن شہید ملکناز کی بہادری اور شیرزالی نے اس جمود کو توڑ دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے بلوچستان میں موجود تھا۔ شہید ملکناز کی مزاحمت نے بی ایس او اور بی این ایم کی اُس سوچ و نظریہ کو بلوچستان سمیت دنیا میں موجود تمام بلوچوں کی آواز بنایا کہ ریاست بلوچستان میں ایک بدترین بربریت میں ملوث ہے۔


انہوں نے کہا کہ ریاست اس بات سے نابلد تھا کہ ملکناز کی شہادت اور برمش کی آواز دنیا بھر تک پہنچ سکے گی۔ لیکن ریاست کی سوچ کے برخلاف یہ ایک بلوچ قومی آواز بن کر ایک نئی ہمت و تحریک کا سبب بن گئی۔ بابل لطیف نے کہا کہ بلوچستان میں میڈیا کی آزادی نہ ہونے کے سبب بلوچستان کے ہزاروں واقعات دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور جن واقعات کو پزیرائی ملتی ہے ہم دیکھتے وہ بھی صرف سوشل میڈیا پر بلوچ جھدکاروں کی انتھک محنت سے ملتی ہے۔



بابل لطیف نے شہید نورجان کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید نورجان کو ریاست کی جانب سے گرفتاری اور گمشدگی کے بعد اس لئے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو ریاستی فورسز کے سامنے پیش کرے۔ لیکن شہید نورجان دشمن کو یہ پیغام دیتا ہے کہ آپ میری لاش اپنی کیمپ لے جاسکتے ہیں لیکن میں اپنی بیٹی کو پیش نہیں کرونگا۔ یقیناً یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے لیکن یہ عظیم قربانیوں کا تسلسل ہے۔ قابض اپنی قبضہ گیریت کو مضبوط کرنے کیلئے انسانیت سوز تشدد کا راستہ اختیار کرکے ظلم و بربریت میں اضافہ کرچکی ہے۔ اس کا مقصد عام لوگوں میں خوف پھیلانا ہوتا ہے۔ اس کی ایک اور مثال ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں کے ہاتھوں مشکئے میں مالدار حکیم کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ ہے جہاں ان کے گھر کے خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔


قابض کے ایسے عوامل کا مقصد بلوچ قوم کو جدوجہد سے خائف رکھنا اور ان میں خوف پیدا کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بی این ایم سے وابستہ کارکنوں اور رہنماؤں نے روز اوّل سے اس امر کا اندازہ لگا لیا تھا کہ ریاست آنے والی وقتوں میں بلوچستان میں بھی بنگلہ دیش جیسے مظالم ڈھائے گی۔ مظالم کا مقصد ہماری جدوجہد کو کمزور کرانا ہے، لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ کے شہدا نے اپنی جدوجہد سے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد سے دستبردار نہیں ہونگے۔


انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ ذمہ داری بلوچ نیشنل موومنٹ کے ان ساتھیوں پرعائد ہوتی ہیں جوآج بیرون ممالک موجود ہیں۔ انہیں شبینہ روز محنت کرکے دشمن کی سازشوں کو دنیا کے سامنے آشکار کرنا چاہیے کیونکہ بلوچستان میں پیدا ہونے والی صورتحال ایک انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے۔


بابل لطیف بلوچ نے مزید کہا کہ دشمن ہر ایک قدم پر بلوچ قومی تحریک کیخلاف زہر افشانی کررہا ہے۔ ہمیں بھی بہتر حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہوکر دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ بلوچستان میں پاکستان ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانا بلوچ نیشنل موومنٹ کے کیڈرز کی زمہ داری بنتی ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد ایک حقیقی جدوجہد ہے جس کی سیاسی و سفارتی مدد کرنا دنیا پر فرض ہے۔


دیوان سے بی این ایم کینیڈا زون کے سینئر رکن ڈاکٹر ظفر بلوچ? اٹھائیس مئی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی نیوکلئیر ٹیسٹ کے تابکاری اثرات سے انسانی زندگیوں اور ماحولیات پر سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لیکن اس حوالے مکمل کوائف جمع کرنے یا فیکٹ فائنڈگ مشن کو جانے اور ریسرچ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔


ڈاکٹرظفربلوچ نے کہا کہ ہمارے پاس جو تھوڑے بہت ڈیٹیل موجود ہیں وہ ایک ماسٹرتھیسزسے جمع کردہ ہیں جو دوہزار چودہ میں پبلش کی گئی تھی۔


اس تھیسز کے فائنڈگز کے مطابق بلوچستان میں ٹیسٹ سائٹ سے ایک کلومیٹرکے فاصلے پرایک چھوٹا سے گاؤں تھا جس میں بسنے والے لوگوں کو دھماکوں سے کچھ روز قبل ٹرکوں میں بھر کر زبردستی نکال کرکہیں بھیج دیا گیا۔ ان لوگوں کو کہاں لے جایا گیا کیا، کمپنسیشن دی گئی یا نہیں، کچھ بھی معلوم نہں ہوسکا۔


انہوں نے مزید کہا کہ اس تھیسز کے مطابق کم از کم چار ہزارلوگ تابکاری سے متاثرہوئے ہیں۔ اس میں کینسر،ہیپاٹائیٹس اور تھیلیسیمیا کا مرض کثیر تعداد میں ان علاقوں میں پھیل چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیوکلئیر ریڈیشن تین حصوں میں پھیلتا ہے۔ لوکل فال آؤٹ جو کم ازکم پانچ سو کلومیٹر تک اثر انداز کرتا ہے۔ ریجنل فال آوٹ جو کم از کم پانچ سوسے تین ہزارکلومیٹر تک اثر انداز کرتا ہے اور تیسرا حصہ گلوبل فال آؤٹ ہوتا جو تین ہزار کلومیٹرسے مزید آگے پھیلتا ہے۔


انہوں نے مزید کہا کہ نیوکلئیر اثرات زمین، پانی اور ہوا میں کافی تیزی سے پھیلتے ہیں۔ زمین کے اندر نیوکلئیر تابکاری کے اثرات زیر زمین پیدا ہونے والی فصلوں تک پھیل جاتی ہے جس کے سبب یہ اثرات پھر انسانوں تک پھیل جاتی ہیں۔


ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا بدقسمتی سے بلوچستان میں کسی بھی عالمی ادارے کی جانب سے آزادانہ تحقیقات کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے یہاں ہونے والی تابکاری کی تباہی کا اندازہ لگانا یکثرنا ممکن ہے۔ جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں خصوصی طور پر خضدار میں تین ٹنل بنائے ہیں جہاں ایٹم بم اور ایٹم بم لے جانی والی میزائل ذخیرہ کرنے کی سائٹ بنائے گئے ہیں۔

اس میں شاہین میزائل جمع کئے گئے ہیں۔


ڈاکٹر ظفر بلوچ نے کہا کہ ہمیں عالمی اداروں تک اپنی بات پہنچانے چاہئے۔ ہم اقوام متحدہ کے تابکاری کے شعبے سے وابستہ اداروں سے درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جوہری تابکاریوں کے اثرات کے حوالے سے فیکٹ فاینڈنگ گروپ تشکیل دیکر اس حوالے حقائق کو سامنے لانے میں مدد کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں بلوچستان میں تابکاری کے اثرات سے متاثرہ افراد اور واقعات کی حقائق کو یکجاہ کرکے ان اداروں کے سامنے رکھیں۔


آنلائن دیوان سے بی این ایم جرمنی زون کے جنرل سیکریٹری اصغر بلوچ نے سانحہ ڈنک کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملکناز کو شہید کیا گیا اور برمش کو بھی گولی کا نشانہ بناکر زخمی کیا جاتا ہے۔ جب علاقہ مکین ڈیتھ سکواڈ کارندے کو پکڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو شہید ملکناز کا قاتل عوام کو یہ کہہ کر ڈرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں پاکستانی فوج اور ایجنسیوں کا کارندہ ہوں، مجھے چھوڑدیں ورنہ آپ لوگوں کے ساتھ برا سلوک کیا جائیگا۔


اصغر بلوچ نے کہا ملکناز کا واقعہ چونکہ ایک تاریخی واقعہ بن چکاہے اور برمش ایک ہی دن میں بلوچ سماج میں تاریخی کردار بن چکی ہے۔ بلوچستان سے لیکر امریکہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں پہچان مل چکی تھی تو پاکستان نے صرف حالات کو بہتر بنانے کے لیے کچھ ڈرامائی گرفتاریاں کیں۔ سمیر سبزل جیسے ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں کو ریاستی پشت پناہی حاصل ہے، اس لئے اس کے چند چھوٹے کارندوں کو سزا سنا کر سمیر سبزل کو بری کردیا گیا۔


اصغر بلوچ نے کہا کہ بلوچ قومی ری ردعمل سے خائف ریاست نے کچھ عرصہ کی خاموشی کے بعد پھر سے اپنے ڈیتھ سکواڈ کو علاقوں میں منظم کرنا شروع کردیا ہے۔ اصغر بلوچ نے کہا کہ برمش جیسے ہزاروں بچیوں کے واقعات بلوچستان میں پیش آتے ہیں لیکن تمام واقعات ہم تک نہیں پہنچ پاتے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ برمش ڈے جیسے دن منائیں اور دنیا کو باور کرائیں کہ بلوچستان میں ظلم و بربریت کرنے والی قوتیں کونسی ہیں، بلوچ قومی نسل کشی میں کون ملوث ہیں۔


انہوں نے مزید کہا کہ ضروری ہے کہ ہم ایسے تمام واقعات پر کھل کر بات کریں، بلکہ سنگین ردعمل کا مظاہرہ کریں وگرنہ بلوچستان میں ریاست پاکستان اپنی بربریت میں مزید تیزی لاتی رہیگی۔ اس کا شکار کبھی ملکناز و برمش تو کبھی کلثوم بلوچ ہونگی تو کبھی نورجان کی صورت میں ہمیں بربریت دیکھنے کو ملیں گی۔


اصغر بلوچ نے اپنی خطاب کے آخر میں کہا بحیثیت پارٹی ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ایسے حالات و واقعات پر شدید ردعمل دکھاتے ہوئے دشمن کے پروپیگنڈہ کو نہ صرف شکست دیں بلکہ عام عوام کو بھی یہ احساس دلائیں کہ بحیثیت قوم ہماری منزل و جدوجہد ایک ہی ہے۔


مورخہ:30مئی 2021

Comments


Featured Posts
Recent Posts
Archive
Search By Tags
No tags yet.
Follow Us
  • Facebook Basic Square
  • Twitter Basic Square
  • Google+ Basic Square
bottom of page