top of page

بلوچ قوم اور قومی تحریک پر قبائلیت کے اثرات تحریر: رحیم بلوچ ایڈوکیٹ


بلوچ قوم اور قومی تحریک پر قبائلیت کے اثرات تحریر: رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

قبائلیت معاشرتی ارتقا کا کوئی ایسا مرحلہ یا سماجی نظام نہیں ہے کہ جس سے صرف بلوچ قوم ہی کو واسطہ پڑا ہو بلکہ دنیا کے تمام اقوام، ترقی یافتہ اقوام ہوں یا ترقی پزیر، اپنے سماجی ارتقا کے سفر میں قبائلیت سے ہوکر آگے بڑھے ہیں۔ سماج کبھی ساکن و جامد نہیں ہوتا بلکہ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ سماجی تبدیلی کا یہ عمل اکثر پُرامن ارتقائی عمل کے ذریعے جاری رہتاہے مگر ہر رائج الوقت نظام میں طاقت اور وسائل پر اختیار رکھنے اور اس نظام سے مستفید ہونیوالے طبقات، منصب دار اور ان کے حمایتی اکثر تبدیلی کے مخالف ہوتے ہیں۔ وہ ہر قدم پر تبدیلی کی عمل کے آگے رکاوٹیں کھڑی کرتے رہتے ہیں جس کے باعث بعض اوقات سماجی ارتقا کا عمل بہت سست رفتار ہونے لگتا ہے۔ سماجی ارتقا کی یہ سست رفتاری ترقی و تبدیلی کے عمل کے آگے رکاوٹ بننے لگتا ہے۔ جن معاشروں کو ایسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے وہاں سماجی تبدیلی کی متمنی قوتیں رائج سماجی نظام میں بنیادی نوعیت کی تیز رفتار تبدیلی کیلئے بعض حالات میں تشدد، عوامی طاقت اور

دباؤ استعمال کرنے کا راستہ اپناتے ہیں جسے انقلاب کہا جاتا ہے۔

قبائلیت سماجی ارتقا کے سفر میں ایک ابتدائی پڑاؤ ہے جسے دنیا کے بیشتر اقوام سماجی ارتقا کے سفر میں صدیوں پہلے پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ بلوچ قوم سمیت دنیا کے بعض دیگر پسماندہ اقوام اور خطہ ہا میں قبائلیت اور اس کی باقیات کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ ہر قوم و خطے میں اسکی موجودگی کے الگ الگ اسباب ہیں مگر ہمارا موضوع بحث ہے بلوچ قوم اور قومی تحریک پر قبائلیت کے اثرات۔ بلوچ سماج میں قبائلیت ایک بگڑی ہوئی مسخ شدہ شکل میں موجود ہے۔ مساوات، جمہوریت، حریت پسندی اور نوآبادیاتی قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت جیسے صفات تو اس میں مفقود ہیں البتہ تقسیم، آپس میں مخالفت و دشمنی اور قابض حکمرانوں کی قربت و خوشنودی حاصل کرنے کیلئے آپسی مسابقت جیسے منفی اوصاف و عقائد اپنے بدترین شکل میں پائے جاتے ہیں۔ بلوچ سماج میں ارتقائی عمل کی سست رفتاری کی بڑی وجہ بیرونی قوتوں کی مداخلت، قبضہ گیری و بالادستی رہی ہے۔ تاریخی طور پر رند ولاشار کی آپس کی لڑائیوں نے بلوچ قومی قوت کو کافی کمزور اور بیرونی مداخلت و بالادستی کا راستہ ہموار کیا تھا جس سے بلوچ قومی اتحاد کمزوراور سماجی ارتقا کی رفتار سست پڑ گیا تھا۔ تاہم اٹھارویں صدی کی وسط میں میر نصیر خان نوری نے ایک بار پھر بلوچ قوم کو ایک مرکز کے تحت متحد کیا جس کے باعث بلوچ سماج میں قومی یکجہتی، ترقی و سماجی ارتقا کا عمل تیزتر ہوگیا تھااور بلوچ قوم خطہ کے طاقتور اقوام کے صف میں آگیا تھا۔ خان میر نصیر خان کی زیر قیادت بلوچ سماج میں قبائلیت کی جگہ قومیت نے لینا شروع کیاتھا اور وہ اس قابل ہوئے تھے کہ خطے میں بڑی اور طاقتور ریاستوں کے بیچ اپنے ریاست کی بنیاد رکھ سکیں مگر خان میر نصیر خان کی وفات کے بعد اس کے کمزور جانشین قومی یکجہتی اور اپنے حکومت کی مرکزی حیثیت کو برقرار رکھنے میں ناکام ثابت ہوئے جس سے ریاست کی مرکزیت، قومی اتحاد، یکجہتی اور سماجی ارتقا کا عمل کمزور پڑگئے۔ قومی جذبہ اور قومی مفاد کے مقابلے میں قبائلیت و قبائلی مفادات کو اولیت حاصل رہا۔ میر نصیر خان کے پوتے خان میر محراب خان نے اپنے دادا خان میر نصیر خان کی رائج کردہ نظام کی بنیادوں پر ریاست کو دوبارہ مضبوط بنانے اورقومی اتحاد و یکجہتی اور سماجی ارتقا کے عمل کو فروغ دینے کی بھر پور کوششیں شروع کی تھیں۔ بعض سرداروں کی جانب سے مخالفت اور درباری سازشوں کے باوجود وہ اپنے کاوشوں میں بڑی حدتک کامیاب بھی ہوگئے تھے مگر انیسویں صدی کے چوتھے دہائی کی دہلیز پر بلوچستان اور افغانستان میں برطانیہ کی بڑھتی ہوئی سامراجی دلچسپی نے مداخلت و قبضہ گیریت کی شکل اختیار کی۔ اس استعماری مداخلت و قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے خان میر محراب خان اپنے بہت سے قریبی رفقا کے ہمراہ 13 نومبر 1839 کو میری قلات پر حملہ آور انگریزی سپاہ کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے ساتھ ہی بلوچ قوم سے ان کی آزادی ایک بار پھر چِھن گئی۔ انگریزوں نے مختلف یکطرفہ معاہدے بلوچ حکمرانوں پر مسلط کرکے ان کی آزادی کو محدود کردی۔ اس بیرونی مداخلت و قبضہ گیری نے ایک بار پھر بلوچ سماجی ارتقا کی رفتار سست کردی۔ بعد ازاں انگریزوں نے بلوچ قومی اتحاد اور مرکزیت کو مزید کمزور کرنے کیلئے سنڈیمن کی فارورڈ پالیسی کے تحت بلوچ معاشرے میں قبائلیت کو مزید مسخ کرکے سرداریت کی شکل میں بلوچ قوم پر مسلط کردیا جس کی وجہ سے انگریزوں کے خلاف جتنی بھی مزاحمتی تحریکیں ابھریں ان پر قبائلیت کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔ فرسودہ قبائلیت اور اس کی مسخ شکل سرداریت کے باعث انگریزوں کے خلاف قومی سطح کی مزاحمتی تحریک نہ ابھر سکی۔ مختلف اوقات میں مختلف بلوچ قبائل ایک ایک کرکے انگریزوں کے خلاف الگ الگ لڑتے رہے اور قابض و شاطر انگریز قبضہ گیر بڑی آسانی کے ساتھ ان کو شکست دیتے رہے۔ فرسودہ قبائلی و سرداری نظام میں اتنی سکت نہیں تھا کہ بلوچ اپنی قومی شیرازہ بندی کرکے اپنے وقت کی بڑی عالمی قوت انگریز کو شکست دے سکتے۔ نہ صرف یہ بلکہ قبائلیت اور سرداریت انگریزوں کے خلاف ایک بلوچ قومی مزاحمت کی تشکیل میں بھی ایک بنیادی رکاوٹ بنے رہے۔ پہلی عالمگیر جنگ کے بعد بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جب کچھ پڑھے لکھے روشن خیال بلوچ نوجوانوں نے میر عبدالعزیز کرد کی سربراہی میں قومی اتحاد اور آازادی کیلئے سیاسی تحریک کی بنیاد رکھا تو نہ صرف قابض انگریز انتظامیہ کی جانب سے ان کو مخالفت کا سامنا رہا بلکہ قبائلیت اور سردار بھی ان کے آگے بڑی رکاوٹ بنے رہے۔ قومی یکجہتی، آزادی اور جدید خطوط پر ریاست میں اصلاحات کی اس تحریک کی سرداروں نے انگریزوں سے بھی بڑھ کر مخالفت کی۔ نوابزادہ میر یوسف علی خان عزیز مگسی جب اس تحریک میں شامل ہوئے تو انگریز حکمرانوں نے ایک سرداری جرگہ کے ذریعے اسے قید و جرمانہ کی سزا سنائی۔ نوابزادہ میر شہباز خان نوشیروانی اور نوابزادہ میر عبدالرحمان بگٹی کو ان کے قومی سوچ و فکر کے باعث اپنے ہی خاندانوں کے اندر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا حتیٰ کہ 1939 میں مستونگ کے مقام پر سرداروں نے قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے جلسے پر حملہ کردیا اورپولٹیکل ایجنٹ کی ملی بھگت سے خان پر پریشر ڈال کر پارٹی کو ریاست میں کالعدم قرار دلوادیا۔

1947 میں بلوچستان سے انگریزوں کے نکلنے اور بلوچستان کی آزاد ہونے کے بعد بھی فرسودہ قبائلیت اور سرداریت بلوچ قومی یکجہتی کی راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بنے رہے۔ سردار جاموٹ جام میر غلام قادر عالیانی، سردار کیچ نواب میر بائی خان گچکی اور سردار خاران نواب میر حبیب اللہ نوشیروانی کی خان قلات کے ساتھ قبائلی مسابقت و کینہ پروری نے انھیں بلوچ قومی یکجہتی،آزادی اور قومی وقارکے خلاف لاکرکھڑا کردیا۔ یوں وہ اپنے اس محدود قبائلی سوچ اور کوتاہ اندیشی کے باعث بلوچ قومی آزادی کو قومی محکومی میں بدلنے میں مکار پاکستانی حکمرانوں کے ہاتھوں میں آلہ کار بن گئے تھے۔ مذکورہ سرداروں کی آپس میں اس کینہ پروری اور بیجا مسابقت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے شاطر حکمرانوں نے ان کے تعاون سے مارچ 1948 میں بلوچستان پر جبری قبضہ کردیا۔ یوں بلوچ قوم ایک مرتبہ پھر زیردست و محکوم بن گیا جس سے بلوچ سماج کے اندر معاشرتی ارتقاکا عمل ایک بار پھر سست روی کا شکار ہوگیا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بلوچستان پر اپنے نوآبادیاتی قبضہ اور بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار کیلئے اپنے سابق آقاؤں کی طرح ریاستی سرپرستی میں بوسیدہ قبائلیت و سرداریت کو بدستور بلوچ قوم پر مسلط رکھا جس کی وجہ سے پاکستان کے خلاف بھی قومی سطح کی ایک بلوچ مزاحمتی تحریک کی تشکیل میں قبائلیت و سرداریت موثر رکاوٹیں بنی رہیں۔بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ کے خلاف لڑی جانے والے پہلے چاروں جنگوں پر قبائلیت کا رنگ غالب رہا۔ قومی سطح کی کوئی تنظیم اور تحریک پنپ نہ پائی۔ پاکستان کے مکار حکمران بڑی چالاکی سے ایک طرف ریاستی سرپرستی میں ازکار رفتہ اور مسخ شدہ قبائلیت کو بلوچ نیشنلزم و قومی شیرازہ بندی کے خلاف استعمال کرتے رہے اور دوسری طرف پاکستانی قبضہ اور نوآبادیاتی پالیسیوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں و مزاحمت کو ترقی و تعلیم سے خوفزدہ سرداروں کی بغاوت کا نام دے کر بلوچ عوام اور پاکستانی و عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ سرکار اور کوتاہ اندیش سرداروں کی ملی بھگت نے بلوچ سماج کے اندر قومی یکجہتی اور ارتقائی عمل کی رفتار کو سست تو کیا مگر سماجی ارتقا کو مکمل روکنا ان کے بس میں نہیں تھاکیونکہ ایسا قانون فطرت کے خلاف ہے۔ سرکار اور سرداروں کی پیدا کردہ رکاوٹوں کے باوجود بلوچ سماج کے اندر قومی یکجہتی اور معاشرتی ارتقا کا عمل جاری رہا۔ میر عبدالعزیز کرد، نواب یوسف علی مگسی اور ان کے رفقا نے بلوچ نیشنلزم، قومی اتحاد اور آزادی کے جس تحریک کی بنیاد رکھاتھا قوم دوست بلوچ رہنماؤ اور باشعور سیاسی کارکنوں نے اس مشن کو جاری رکھا جس کی وجہ سے بلوچ قومی آزادی کیلئے اٹھنے والی موجودہ تحریک میں سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد میں شمولیت، تحریک آزادی کو تنظیمی بنیاد فراہم کرنا، بلوچستان کے بیشتر علاقوں تک تحریک کا پھیلاؤ اور وسیع تر عوامی شرکت ممکن ہوگیا۔ اسلئے آج بلوچ قومی تحریک آزادی ایک قبائلی بغاوت و چند سرداروں کی سرکشی کے بجائے ایک قومی تحریک آزادی کے رنگ میں نظر آرہا ہے۔ اس کامیاب پیشرفت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قبائلیت کے اثرات اب بلوچ سماج میں ختم و ناپید ہوگئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سرپرستی اور سماج میں ارتقائی عمل کی سست رفتاری کے باعث قبائلیت آج بھی بلوچ سماج کے اندر اپنی بہت ہی مسخ شدہ شکل میں موجود ہے جس کے منفی اثرات سے بلوچ تحریک آزادی بھی محفوظ نہیں ہے۔

قبائلیت، اس کے فرسودہ اصول و عقائد اور بلوچ تحریک پر اس کے منفی اثرات کے بارے میں بزرگ بلوچ سیاستدان سردار عطااللہ خان مینگل نیاپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کھل کر بات کی ہے۔ سردار صاحب سے یہ انٹرویو شہمیر بلوچ نے کی ہے جو مئی 2018 میں انگریزی روزنامہ ڈان، ہیرالڈ اور مختلف ویب سائیٹس پر شائع ہوئی ہے۔ مذکورہ انٹرویو میں سردار صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ‘‘ بلوچ کی یہ ایک بڑی کمزوری ہے کہ وہ ہمیشہ اکیلے (بطور قبائل) لڑتے رہے ہیں یا پھر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف لڑنے کے بجائے آپس میں لڑتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ جب مینگل اور مری قبائل لڑرہے تھے تو وہ ایک قبائلی لڑائی دکھائی دے رہا تھا کیونکہ بگٹی قبیلے نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ایک اورانسرجنسی 2004 میں شروع ہوا تو مینگل قبیلہ نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ شروع سے لیکر زیادہ تر جنگیں ریاست کے خلاف قبائلی لڑائیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن موجودہ جنگ ماضی کے جنگوں سے مختلف ہے۔ اس تحریک میں ایک بلوچ اتفاق رائے نظر آتا ہے لیکن پھر بھی بلوچ قبائل میں منقسم ہیں اور یہ(قبائلیت) اتحاد کی دشمن ہے۔ سردار صاحب نے قبائلیت سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ‘‘ قبائلیت کا پہلا اصول دشمنی ہے قبائل بلوچ قوم کو تقسیم کرتے ہیں اور وہ انھیں ایک مشترکہ مقصد اور اتحاد کیلئے کام کرنے نہیں دیتے۔حتیٰ کہ ہمارے بلوچ قوم پرست،جن کا دعویٰ ہے کہ بلوچ قومی حقوق کیلئے لڑ رہے ہیں، اپنے قبائل سے باہر نہیں آرہے ہیں تو آپ ایک عام بلوچ سے قبائلیت کو پیچھے چھوڑ آنے کی امید کیسے کرسکتے ہیں۔ جب نام نہاد بلوچ قوم پرست فخریہ اپنے قبائل کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔‘‘ ایک اور سوال کے جواب میں سردار صاحب کہتا ہے کہ‘‘سرداری نظام اپنی زندگی جی چکاہے اب یہ مکمل متروک ہے اور جدید دنیا میں کسی کام کا نہیں ہے۔ دنیا قبائلی دور سے بہت پہلے آگے بڑھ چکا ہے’’دوسرے ایک سوال کے جواب میں سردار صاحب نے کہا ہے کہ‘‘جب تک بلوچستان میں کوئی متبادل نظام متعارف نہیں کیاجاتا ہے،قبائلی نظام بلوچوں پر راج کرتا رہیگا لیکن یہی عمل کا وقت ہے کہ اس کے متبادل ایک نظام تشکیل دی جائے‘‘۔ بڑے سردار صاحب نے قبائلیت کی فطرت، خصائل و عقائد، اصولوں اور بلوچ قومی یکجہتی و تحریک (آزادی) پر اس کے منفی اثرات کے بارے میں جس طرح کُھل کر بات کی ہے اسے جُھٹلانا یا اس کے برعکس دلائل دیناکسی کیلئے آسان نہیں ہے۔ سردار صاحب نے جو باتیں کی ہیں گوکہ وہ سیاسی و علمی لحاظ سے نئی معلومات یاانکشافات نہیں ہیں بلکہ سماجیات، سماجی ارتقا کے اصولوں اور بلوچ قومی تاریخ سے شناسا ہر شخص ان کے بیان کردہ حقائق سے واقف ہے البتہ قبائلیت و سرداریت کے بارے میں یہ جو باتیں سردار عطااللہ خان مینگل نے کی ہیں اس کی جگہ یہی باتیں کوئی بلوچ سیاسی کارکن یا کوئی دانشور کرتا تو اس پر الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی۔ اس پر بلوچ قوم اور قومی تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم اور کمزور کرنے کے الزامات لگائے جاتے، اس پر طرح طرح کی تہمتیں لگتیں اور اسے کڑی نقطہ چینی کا نشانہ بنایا جاتا۔

سردار صاحب نے قبائلیت کے متبادل ایک نظام متعارف کرنے کو وقت کی ضرورت قرار دی ہے۔ اس مجوزہ متبادل نظام کی راہ میں پہاڑ جیسی بڑی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پہلی بڑی رکاوٹ تو بلوچ قومی محکومیت ہے۔ اپنے سماجی،سیاسی، معاشی نظام کی تبدیلی اور ایک نیا نظام نافذ کرنے کا فیصلہ ایک آزاد قوم ہی کرسکتا ہے جبکہ بلوچ آزاد نہیں محکوم ہیں اپنے قومی زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار ان کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے بلکہ قابض پاکستانی مقتدرہ کے اختیار میں ہے۔ اسلئے نظام کی تبدیلی و ترقی کیلئے بلوچ قوم کو آزادی حاصل کرنا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے چونکہ قبائلیت بلوچ نیشنلزم، قومی یکجہتی اور تحریک آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کا فائدہ صرف اور صرف بلوچ قوم کے دشمن اٹھا رہے ہیں اسلئے قبائلیت کی جگہ کوئی نیا نظام متعارف کرانے کی راہ میں بلوچ قوم کے دشمن پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اوراس کے ہمنوا روایتی سردار قدم قدم پررکاوٹیں کھڑی کریں گے مگرمذکورہ بال دونوں رکاوٹوں کو ایک متحدہ، منظم و مضبوط تحریک آزادی کے ذریعے ہی شکست دی جاسکتی ہے لیکن یہ تب ممکن ہے جب تحریک آزادی کے تمام اجزا کو اس امر کا شعوری ادراک و احساس ہو اور وہ اس بات پر متفق بھی ہوں مگر قرائن بتارہے ہیں کہ تحریک کے اندر سے بھی ایسی کوششوں کی مخالفت یقینی ہے کیونکہ تحریک آزادی میں شامل سردار اور سردارزادے قبائلیت کے بارے میں سماجی و سیاسی مباحث کو علمی اور سماجی ارتقا کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اپنی مخالفت سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کے حلقہ بہ گوش سیاسی کارکن اور دانشور ایسے مباحث و شعوری کوششوں کو بلوچ قوم و تحریک آزادی کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کرنے کا نام دیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیااپنے ذاتی و خاندانی موروثی اثرورسوخ و ناجائز مفادات کیلئے کروڑوں بلوچوں کو قبائلی بنیادوں پر منقسم اور آپس میں متحارب رکھنے والے چند درجن سردار بلوچ نیشنلزم، قومی تحریک و یکجہتی کو نقصان پہنچا رہے ہیں یا قبائلیت کے بجائے نیشنلزم کی بنیاد پرکروڑوں بلوچوں کو متحد، منظم اور موبلائز کرنے کی شعوری کوشش کرنے والے قوم کو تقسیم کر رہے ہیں؟ کیا قوم کو منقسم اور ایک دوسرے کیخلاف صف آرا رکھنے والی قبائلیت سے کسی نہ کسی شکل میں مستفید ہونے اور اس کی وکالت کرنے والے بلوچ قوم اور تحریک کو تقسیم کر رہے ہیں یا قبائلیت کی خرابیوں کو اجاگر کرنے اور قومی جزبہ و یکتہجی کو فروغ دینے کی کوشش کرنے والے قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟ کیا کروڑوں بلوچوں کااجتماعی مفادات مقدم ہیں یادشمن کے ساتھ معاونت کرنے والے چند درجن سرداروں کا مفاد؟ کیا قومی تحریک آزادی سے وابستہ سردار اور سردار زادوں کو قبائلیت سے حاصل اپنے محدود اثر ورسوخ اوردیگر مفادات کی خاطر قبائلیت کی وکالت کرنا چاہیے یا پھر وسیع تر قومی مفاد میں نیشنلزم، قومی یکجہتی و اتحاد کی راستے میں حائل قبائلیت کے نقصانات اور خامیوں کو کھل کر بیان کرنا چاہیے؟ گوکہ ہم سب اسی فرسودہ و بوسیدہ قبائلی سماج میں پیداہوئے اور پلے بڑھے ہیں اسلئے ہم سب کی سوچ اور رویوں پر قبائلیت کے منفی خصائل و عقائد کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں موجود بھی ہوسکتے ہیں مگر سردار یا سردار خاندان سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور کیڈرز کی سیاست اور رویوں میں تو قبائلییت کے منفی اثرات کچھ زیادہ ہی دِکھتے ہیں۔ تنقید اور نقطہ چینی، اختلاف اور دشمنی میں فرق نہ کرنا، عدم برداشت، کینہ و ضد، اناپرستی اور خودپرستی جیسے رویئے قبائلیت و سرداری کی دین ہیں گوکہ ان رہنماؤں میں سے بیشتر کا طرز زندگی قبائلی نہیں ہے وہ تعلیم یافتہ اور جہاندیدہ بھی ہیں مگر ان کی نفسیات اور رویوں میں قبائلیت کے اثرات موجود ہیں۔ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر قبائلیت کی سحر میں جھکڑے نظر آتے ہیں۔ وہ بات تو بلوچ نیشنلزم کی کرتے ہیں مگر عملاً نیشنلزم کی ضد قبائلیت و سرداری کے حامی ہیں۔ بوسیدہ قبائلیت و سرداری پر تنقید سے ان کو تکلیف ہوتاہے بقول سردار عطااللہ کہ قبائلیت سے چمٹے ہوئے ہیں جس کے باعث نہ صرف یہ کہ وہ متحد نہیں ہو پارہے ہیں بلکہ مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہیں۔ قومی تنظیم کی تشکیل و رہنمائی کی نسبت وہ اپنے قبائل کی سرداری حاصل

کرنے میں زیادہ دلچسپی اور سرگرمی دکھاتے رہے ہیں۔

سردار عطااللہ خان مینگل نے موجودہ تحریک میں کسی حد تک ایک قومی اتفاق رائے کا حوالہ دیا ہے مگر جس عنصر کی وجہ

سے تحریک میں یہ قومی رنگ اور اتفاق رائے نظر آتاہے وہ عنصر نہ صرف ریاست کی طرف سے شدید دشمنی کا سامنا کر رہا ہے بلکہ تحریک کے اندر سے سرداروں، سردارزادوں اور ان کے حامی سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کی بیجا نقطہ چینی و مخالفت کابھی سامنا کر رہا ہے۔بلوچ قوم، نیشنلزم اور تحریک آزادی پر قبائلیت کے منفی اثرات کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ تحریک آزادی میں شامل سردار اور سردار زادے اپنے سیاسی طاقت اور اثر و رسوخ کی بنیاد اپنے قبائل اور سرداری اثرورسوخ کو سمجھنے اور ان پر انحصار کرنے کی بجائے قومی طاقت اور اثر و رسوخ پر انحصار کریں، اپنے محدود قبائلی سوچ و مفادات پر قومی سوچ اور مفادات کو ترجیح دیں مگر اب تک وہ ایسا نہیں کرپارہے ہیں۔ وہ قومی سوچ اور مفادات کو ترجیح دینے پر تب قائل یا مجبور ہونگے جب ان کے حامی سیاسی کارکن اور دانشور ایسا سوچنے و عمل کرنے کیلئے انھیں اپنے شعوری کوششوں اور دباؤ سے قائل یا مجبور کریں گے، انھیں قبائلیت کی سحر اور حصار سے نکالنے کے لئے ان کے حلقہ احباب میں شامل سیاسی کارکنوں و دانشوروں کا ایک کلیدی کردار بنتا ہے اور وہ یہ تاریخی کردار تب ادا کرسکیں گے جب وہ چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات اور درباری سوچ ترک کرنے کے قابل ہونگے۔واجہ کی خوشنودی اور قربت حاصل کرنے کیلئے واجہ کے سرداری مفادات کا محافظ بننے کے بجائے وہ قومی اور پارٹی مفادات کا محافظ بنیں تو بلوچ نیشنلزم و بلوچ تحریک پر قبائلیت کے منفی اثرات کو غیرموثر بنایا جاسکتا ہے۔

Featured Posts
Recent Posts
Archive
Search By Tags
No tags yet.
Follow Us
  • Facebook Basic Square
  • Twitter Basic Square
  • Google+ Basic Square
bottom of page