انسانی حقوق کی صورتحال پر پانک کی طرف سے جاری کردہ جون 2022 کی رپورٹ:
انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ہیومین رائٹس سیکریٹری ڈاکٹرناظرنورنے ماہ جون کا تفصیلی رپورٹ ہیومین رائٹس ڈیپارٹمنٹ پانک کی جانب جاری کرتے ہوئے کہاکہ جون کے مہینے میں پاکستانی فوج ،خفیہ ادارے اورفوج کے آلہ کارڈیتھ سکواڈ کی سفاکیت بلوچستان بھر میں جاری رہے،گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان کے طول وارض میں سال کے بارہ مہینے فوجی آپریشن جاری رہتے ہیں ان آپریشنوں میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اب تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرپاکستان بازپرس کے خوف سے آزادہوچکاہے پاکستان سمجھتاہے کہ اسے بلوچستان میں استثنیٰ حاصل ہے خواہ جس قدرچاہے بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرے۔
جون کے مہینے میں پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں نے بلوچستان اورسندھ کے علاو ہ پنجاب میں زیرتعلیم بلوچ نوجوانوں کوخاص طورپرنشانہ بنایا، کل 29 افراد کو حراست میں لے کرجبری لاپتہ کردیا ، جون اور جون سے پہلے جبری گمشدگی کے شکار بننے والے 36افراد بازیاب ہوئے،4افرادکو منظرعام پر لایا، 7افراد کےسی ٹی ڈی کے ذریعے گرفتاری ظاہر کی ۔جون کے مہینے میں ٹارچر سیلز میں 3لوگ قتل ہوئے ، پاکستانی فوج کے ساتھ جھڑپ میں 8 نوجوان شہید ہوئے ۔
بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیاں نئی بات نہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا آیاہے پاکستان کی سفاکیت سے بلوچ سماج شدید متاثر ہوا ہے ہزاروں لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں سالوں سے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں ،سڑکوں اور احتجاجی کیمپوں میں لوگوں کی عمر گزر رہی ہیں لیکن انہیں سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا،لوگ شدید کربناک حالات سے دوچار ہیں ،معلوم ہوتاہے کہ پاکستان اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ جبری گمشدگیاں کس طرح لوگوں کی زندگیاں اجاڑدیتی ہیں ،لوگ کس طرح ہولناک طریقے سے اپنے پیاروں کے لیے تڑپتے رہتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ پاکستان جبری گمشدگی کے ہتھیار سے بلوچ کو اجتماعی سزا سے گزارنا چاہتاہے پاکستان چاہتاہے کہ لوگ اس اذیت سے دوچار رہیں اور سماج کا بڑا حصہ نفسیاتی مسائل کی لپیٹ میں آجائے کیونکہ پاکستانی مظالم کی حالیہ تاریخ کو دیکھا جائے توہمیں بخوبی معلوم ہوتاہے کہ پاکستان بلوچ سما ج کو اجتماعی سزا کے ہتھیارسے غیرسیاسی بنانا چاہتاہے تاکہ لوگ اپنے قومی اور سیاسی حقوق کے لیے آوازبلند کرنے سے قاصررہیں۔
جون2022 کے مہینے میں پاکستانی فوج اور پاکستانی فوج سے منسلک اداروں کے ہاتھوں جبری لاپتہ افراد
27 جبری گمشدگیاں
36 بازیاب
17 تاحال جبری لاپتہ
اضلاع جہاں سے جبری گمشدگیاں رپورٹ ہویئں
4 کوئٹہ
2 گوادر
6 کراچی
1 تربت سٹی
1 خضدار
3 پنجگور
3 دشت
3 مشکے
1 مچھ
2 کولواہ
1 خاران
پاکستانی فورسز کا بلوچستان میں پرتشدد واقعات
5جون، مشکے آواران کے علاقے کھندڑی میں ریاستی ایما پر چلنےوالی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے شیرا ولد احمد نے گاوں کے ایک نہتے اور معصوم رہائشی عبدالغفور ولد بہادین پر بلاوجہ شدید جسمانی تشدد کیا گیا، فیملی ممبر نے بتایا کہ عبدالغفور پرانتہائی غیرانسانی تشدد کیے جانے بعد صحت کی خرابی کے باعث علاقے کے ہیلتھ سینٹر لے جایا گیا ،وہاں ڈاکٹر صاحب کی مشورے پرمزید علاج کیلئے خضدار لے جایا گیا۔
6جون،مستونگ کاریزسور میں پاکستانی فورسز نے عبدالرحیم شاہوانی کے گھر پر چھاپہ مارا، اس دوران گھر میں تھوڑ پھوڑ کی گئی،جبکہ گھر میں موجود خواتین و بچوں سمیت دیگر افراد کو زودکوب کیا گیا،خوش قسمتی سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔
7جون، پنجگور وشبود کے رہائشی پولیس ملازم باب جان کی 4جون کو مبینہ اغوا اور عدم بازیابی کے خلاف اہلیان پنجگور اور لواحقین نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور پولیس اسٹیشن کے سامنے دھرنا دیکر نعرہ بازی کی گئی۔
8جون،بلوچستان کے علاقے بولان میں پاکستانی فورسز کی جانب آپریشن کیا گیا ،پاکستانی فوج کے پیدل دستے مختلف علاقوں میں پیش قدمی کرتے رہے،جنھیں فضائی مدد بھی ساتھ تھی۔
9جون، پنجگور چتکان سے 2018 کو ریاستی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانی بننے والے صلاح الدین کے لواحقین نے چار سال بعد اپنے بیٹے کی خبر سامنے لایا، لواحقین کا کہنا تھا کہ ہمیں ڈرا دھماکر خاموش کرایا گیا کہ اگر آپ نے اس مسلے پر بات کرنے کی کوشش تو صلاح الدین کو نقصان دیا جائے گا۔
13جون، کراچی یونیورسٹی کے طالب علم گمشاد مرید اور دودا الہی کی باحفاظت بازیابی کیلئے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور وائس فار بلوچ مسنگ سمیت اہلخانہ نے کراچی پریس کلب کے سامنے علامتی بھوک پڑتالی کیمپ لگایا،سندھ اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیاگیا جہاں سندھ پولیس نے بلوچ خواتین اور بچوں سمیت مرد حضرات کو شدید تشدد کرنے کے بعد پویس تھانوں میں بند کردیا۔جن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر آمنہ بلوچ ،وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جنرل سیکریٹری سمی دین اپنی چھوٹی بہن مہلب دین سیمت 50 کے قریب مظاہرین شامل تھیں۔
15جون، پاکستانی فورسز نے بلوچستان کے علاقے بولان میں زمینی وفضائی آپریشن کیا تھا، آپریشن کے نتیجے میں کئی باز عام آبادی کو جانی ومالی نقصان کا سامنا کرنا پڑاتھا، لیکن اس آپریشن میں کوئی جانی ومالی آپریشن رپورٹ نہیں ہوئے تھے۔
21جون، بلوچستان کے علاقےچاغی میں پاکستانی فورسز نے ایک ڈیزل بردار گاڑی پر فائرنگ کردی جس سے ایک عمر رسیدہ خاتون گولی لگنے سے شدید زخمی ہوئی تھیں،
25جون کو بلوچستان سے جبری لاپتہ ہونے والے چند افراد جنھیں نوشکی میں سی ٹی ڈی پولیس کے حوالے کیے گئے،جن میں پیر جان ولد سردو سکنہ ایرو،پسند علی ولد چارشمبے سکنہ کساک بلیدہ،عبدالصمد ولد رحیم بخش سکنہ ایریکان، پھلان ولدخدابخش شامل تھے،
28جون،کوئٹہ کے علاقے جیورکالونی سےجبری گمشدگی کا شکار بننے والے نوجوان باسط ولد عبدالغنی کی گرفتاری کو ڈیرہ بگٹی سے ظاہر کردی گئی،سی ٹی ڈی نے ڈیرہ بگٹی سے عبدالباسط کو گرفتار کرنے کا جعلی ڈرامہ رچاکر قبضے سے پستول اور بارودی مواد برامد کرنے کا دعوی کیا تھا،جبکہ عبدالباسط کے قریبی زرائع کے مطابق چار ماہ قبل کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے جنھیں ایف سی اور خفیہ اداروں نے گھر پر چھاپے کے دوران حراست میں لے کر جبری گمشدگی کا شکار بنایا تھا،
Comments