مرگاپ واقعہ بلوچستان کی تاریخ میں جلیانوالہ والا باغ کا درجہ رکھتا ہے۔ بی این ایم آن لائن پروگرام سے
چیئرمین غلام محمد بلوچ اپنے کمٹمنٹ، سیاسی بصیرت اور قربانی سے بلوچ قوم پرستانہ سیاست کے اوج ثریا پر پہنچے۔ دل مراد بلوچ
شہدائے مرگاپ کی گیارہویں برسی کے موقع پر ایک مرکزی آن لائن اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا اور برطانیہ میں شہدائے مرگاپ کی یاد میں ریفرنسز منعقد کئے گئے۔ ان میں مقررین نے شہدا کی قربانیوں اور فلسفہ پر مفصل بات کی اور عہد کیا کہ شہدا کی مشن آزاد بلوچ وطن کی حصول میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ مرکزی اجلاس کے مہمان خاص بی این ایم کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دلمراد بلوچ تھے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری دل مراد بلوچ نے شہدائے مرگاپ کو سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا چیئرمین غلام محمد کو سیاست میں عظیم نام ومنصب میراث میں نہیں ملا تھا بلکہ ان کی کمٹمنٹ،سیاسی بصیرت، بہادری تھا کہ نہ صرف خود بلوچ قوم پرستانہ سیاست کے اوج ثریا پر پہنچے، عظیم سیاسی میراث تخلیق کی بلکہ ہم جیسے بے نام و نشان لوگوں کو بھی اپنی سیاسی میراث کا حصہ بنایا، عزت اور وقار بخشا اور بی این ایم جیسی پارٹی میں خدمات کا موقع عطا کیا۔
انہوں نے کہا کہ مرگاپ واقعے کا بلوچ قومی سیاست میں وہی درجہ ہے جو اسلامی تاریخ میں کربلا، یا ہندوستان کی تاریخ میں جلیانوالہ باغ کا واقعہ ہے۔ گوکہ جلیانوالہ باغ بہت بڑی واقعہ تھا اس میں عددی اعتبارسے برطانوی سامراج نے بے شمارلوگ قتل کئے لیکن اثرات کے حوالے سے کافی مماثلت پایا جاتا ہے۔ مرگاپ واقعے نے بلوچ قومی سیاست پر دوررس اثرات مرتب کئے۔ مرگاپ واقعے نے بلوچ قوم اور پاکستان کے درمیان جو خلیج بنا دی ہے، اسے پاکستا ن اپنے حواریوں کے ساتھ مل کر کبھی نہیں پاٹ سکتا۔
دل مراد بلوچ نے کہا پاکستان شاید یہ سمجھتا تھا کہ غلام محمد، لالا منیر اور شیرمحمد جیسے رہنماؤں کو بہیمانہ تشدد سے قتل کرکے ایک عبرت ناک مثال قائم کرے گا اور بلوچ توبہ تائب ہوکر جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں گے۔ دوسری طرف بلوچ قومی تحریک میں عوامی موبلائزیشن اور سیاسی آواز کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جہاں حق کی یافت کے لئے سرکٹتے ہیں تو وہاں انقلاب کا بہار آتا ہے، وہاں آزادی کے نغمے گونجتے ہیں، وہاں نسلیں سوگنداٹھاتے ہیں کہ راہ حق کے شہیدوں نے جس منزل کے لئے اپنی سریں قربان کی ہیں ہم بھی اسی راہ کے راہی ہیں، ہم بھی اسی راہ کے مسافر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کریڈٹ چیئرمین غلام محمد کو جاتا ہے کہ انہوں نے بلوچ قومی آزادی کی سیاست کو عوامی بنا دیا اور بلوچ سیاست میں روایتی طرز سیاست کے بجائے عوامی شمولیت اور موبلائزیشن کا عمل شروع کیا۔ چیئرمین نے باور کرایا کہ عوامی موبلائزیشن اور شمولیت کے بغیر جدوجہد کی کامیابی ناممکن ہے۔
دل مراد بلوچ نے کہا غلام محمد بلوچ ایک کثیرالجہتی انسان تھے لیکن مجھے سب سے زیادہ ان کی سیاسی بصیرت نے متاثر کیا۔ یہ غلام محمد بلوچ کے دوررس نگاہوں کا اعجاز ہے کہ انہوں نے بہت پہلے یہ ادراک کر لیا تھا کہ اس وقت کے بی این ایم کی قیادت پارٹی کو پاکستان کے لئے ایک ڈیتھ سکواڈ بنائیں گے اور اس پارٹی کے ہاتھ بلوچ کے لہوسے رنگین ہوں گے۔
انہوں نے کہا بلوچ سیاسی قیادت میں غلام محمد واحد رہنما تھے جنہوں نے انضمام کے وقت پوری سیاسی کھیپ کا اپنی سیاسی بصیرت اور بہادری سے تنہا مقابلہ کیا اور ثابت کر دیا کہ کٹھ پتلی قیادت کے بکنے سے پارٹی نہیں بک سکتاہے۔ ڈاکٹر مالک و حئی کے جھکنے سے پارٹی کارکن نہیں جھک سکتے ہیں۔ انہوں نے نہ صر ف پارٹی کو برقرار رکھا اور آج بی این ایم پوری دنیا میں آباد بلوچ یا جلاوطن سیاسی کارکنوں کی سیاسی آواز بن چکا ہے۔
دل مراد بلوچ نے کہا کہ بی این ڈی پی سے انضمام دراصل نوے کی دہائی سے شروع ہونے والے انحراف کا تکمیل تھا۔ ڈاکٹر مالک و ڈاکٹر حئی یہ تہیہ کر چکے تھے کہ بی این ایم کا نام و نشان مٹا ڈالیں گے۔ جب واجہ چیئرمین نے ان منحرفین کا مقابلہ کیا تو ڈاکٹر مالک نے کہا تھا کہ ”بی این ایم لالامنیر سے شروع ہوکر غلام محمد پر ختم ہوجاتی ہے“، لیکن آج تاریخ یہ بھی ملاحظہ کررہی ہے کہ منحرف ٹولے کا نام ونشان مٹتا جارہا ہے اور چیئرمین غلام محمد بلوچ قومی حافظے کا انمٹ حصہ بن چکے ہیں۔
بی این ایم کے سابقہ فنانس سیکریٹری حاجی نصیر بلوچ نے آن لائن دیوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا آج کے دن بلوچ قوم، بلوچ سرزمین اورقومی تحریک کے عظیم رہنماؤں نے بلوچ قومی آزادی کے لئے اپنے سر دان کردیئے۔
انہوں نے کہا کہ شہید واجہ غلام محمد، لالامنیر اور شیر محمد کی زندگی کا مقصد صرف بلوچ قومی آزادی تھا۔ یہ تینوں رہنما نہ سردار تھے، نہ زردار بلکہ عام غریب بلوچ کی زندگی گزارنے والے لوگ تھے۔ ان رہنما ؤں کی زندگیاں کھلی کتاب کی مانند ہیں۔ چیئرمین غلام محمد بلوچ مختلف مشکلات سے دوچار رہے۔ ان میں لوگوں کی جانب سے طنز اورشکوک وشبہات زیادہ تکلیف دہ تھیں۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب مرگاپ میں رہنماؤ ں کی لاشیں پھینک دی گئیں۔ کچھ لوگ شرمساری سے آنسو پونچھتے رہے۔
حاجی نصیر نے کہا آخری دن تھے کہ ہم سینئر ساتھیوں سے بات چیت کی توسب کا یہی کا خیال تھا واجہ کو زیر زمین رہ کر کام کرنا چاہئے، تو واجہ کا ایک ہی جواب تھا کہ جب تک ہم اس جدوجہد کو عام لوگوں تک نہیں پہنچائیں گے تو ہم ماضی کی تحریکوں سے مختلف نہیں ہوسکتے۔ آج اگر میں اندرگراؤنڈ ہوگیا تو اس جدوجہد کی دفاع کے لئے میدان میں کوئی نہیں رہے گا۔ ایک نشست میں نواب مری نے یہ اقرار کیا کہ ہماری بارہ سالہ جلاوطنی کے بجائے ہم اگر سرزمین پر ہوتے تو نتیجہ مختلف ہوتا اورممکن ہے کہ ہم منزل کے قریب ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ قومی تحریک میں مسلح جدوجہد کی اہمیت اپنی جگہ لیکن سیاسی اورجمہوری جدوجہد کے بغیر کسی بھی تحریک کی منزل تک پہنچنا ناممکن ہے۔ بلوچ قوم نے بھی اس کا خوب تجربہ کیا ہے۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ محض مسلح جدوجہد کو ترجیح دے کر ہم نتائج حاصل نہیں کرسکے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ واجہ چیئرمین سے جب بھی اس بارے میں سوال پوچھا جاتا تو وہ یہی جواب دیتے کہ جدوجہد کے تمام حصوں کے درمیان حدبندی ہونا لازمی ہے۔
حاجی نصیرنے کہا جب انضمام کے بعد نیشنل پارٹی وجود میں آئی تو اس وقت وہ سرکار کی آشیر باد سے بڑی طاقت تھی۔ اختر مینگل کے پاس بھی بڑی طاقت تھی لیکن بی این ایم نے بلوچ قومی آزادی کے موقف پر بلوچستان اور پوری دنیا میں اپنی موقف واضح کردی کہ بی این ایم پاکستانی پارلیمان کا حصہ نہیں بنے گا۔ کوئٹہ، خضدار، کراچی، تربت جیسے بڑے شہروں سمیت دیہی علاقوں میں ان بڑی بڑی پارٹیوں کا وجود ختم ہوگیا اور بی این ایم بلوچ کا سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آیا۔
انہوں نے کہا کہ آج جلاوطنی کے عالم میں ہم روڈوں پر مارچ کرتے ہیں، پمفلٹ تقسیم کرتے ہیں،احتجاج اور احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں۔ ہماری آواز صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔ یورپ جوانسانی حقوق کے ریکارڈ پرفخر کرتاہے آج دو مہینے ہوچکے ہیں کہ ایک نوجوان صحافی لاپتہ ہے جس نے بلوچ قوم، بلوچ جدوجہد کے لئے لکھا۔ ہم عاجز نظر آتے ہیں ہمیں اپنی آواز کو مزید توانا کرنا چاہیئے۔
حاجی نصیر بلوچ نے کہا غلام محمد اور لالامنیر نے بے حدتکالیف کا سامنا کیا لیکن اپنے آپ، خاندان اور قوم کے ساتھ غلط بیانی نہیں کی۔ ظاہر و باطن میں تفاوت نہ تھا۔ چیئرمین شہید نے خود بھی لکھا کہ انہیں مراعات کی پیش کش ہوئی۔ نہ ماننے پرتشدد، مشکلات کا سامنا کیا لیکن ضمیر اور اپنی قوم کا سودانہیں کیا۔
غلام محمد نے مجھے بتایاکہ جب مجھے کراچی سے گرفتار کیا گیا توان کا یہی سوال تھا کہ دیگر پارٹیوں کے پاس چار چارایم پی اے اور ایم این اے ہیں لیکن انہیں عوام میں کوئی پزیرائی نہیں،ان کاکوئی قد و بالاد نہیں۔ آپ ایم پی ہو، نہ ایم این اے،لیکن لوگ پھربھی آپ کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے مجھے دوبارہ پیش کش کی ہم آپ کو ایم پی اے،ایم این اے،سینٹربنائیں گے بس آپ آزادی کا نعرہ چھوڑدیں۔ لیکن غلام محمد جیسی ہستی نے یہ سب ٹکرا کر اپنی سر قربان کی۔ شہید رہنماؤں کا لہو ہم سے یہی تقاضا کرتاہے کہ ہم اپنی قوم،سرزمین اور جدوجہد کے ساتھ مخلص رہیں۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ پہلی بار تربت میں جنوری 2002کو ہم چیئرمین غلام محمد سے ملے۔ ہم سیشن کے لئے گئے تھے۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی سربراہی میں سیشن کا بائیکاٹ کیاتھا۔ بائیکاٹ کے بعد ہم پارک ہوٹل چلے گئے۔ اس وقت کے بی این ایم سے کچھ لوگ ہمیں منانے آئے تھے۔ ان میں چیئرمین غلام محمدبھی تھے۔ بات چیت کے بعد وہ چلے گئے تو ڈاکٹر اللہ نذر نے کہا کہ چیئرمین غلا م محمد کو شاید زبردستی بھیجا گیا ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذرکی باتوں سے ہمیں اندازہ ہوا کہ چیئرمین غلام محمد بھی اسی موقف کے حامی ہیں۔ چونکہ ہم نے کمپرومائز کے لئے سیشن کا بائیکاٹ نہیں کیاتھا لہٰذاان لوگوں کی بات چیت سے ہم اپنے موقف سے دست بردار نہیں ہوئے۔ ہم غیر پارلیمانی سیاست او ر بی ایس او کو آزاد کرنے کا پہلا قدم اٹھاچکے تھے۔ اس کے بعد زیادہ دیر نہیں گزرا کہ انضمام کے بعد چیرمین غلام محمد نے بی این ایم کو نئے موقف کے ساتھ برقرار رکھنے کا اعلان کیا۔
ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا چیئرمین غلام محمد کو بلوچ سیاست، بلوچ ادب پر دست رس حاصل تھا۔ سیاسی انتظامی امور پر ان کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ وہ عالم،فاضل انسان تھے۔ ایک دفعہ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے ہمیں بتایا کہ بلوچ سیاست میں چیئرمین غلا م محمد جیسے کوئی دوسراعالم انسان نہیں ہے۔ ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بتایا کہ انہوں نے ملافاضل پر ایک پروگرام رکھا۔ تمام مقررین کو ایک مہینے پہلے تیاری کا موقع ملا تھا۔ پروگرام سے ایک دن قبل اچانک غلام محمد ملے تو ہم نے انہیں بھی بلایا۔ تیاری نہ ہونے کے باوجود چیئرمین غلام محمد نے ملا فاضل کی شاعری کا دوسرے شعرا ء کے ساتھ تقابلی جائزہ پیش کیا دوسرے مقررین ایک مہینے کی تیاری کے باوجود پیش نہیں کرسکے۔
نبی بخش بلوچ نے کہا شہدائے مرگاپ بلوچ قوم کے لئے سیاہ دن ہے۔ اس دن تین ایسے عظیم لیڈر ہم سے جداکئے گئے جو بلوچستان کے آزادی کے لئے برسرپیکار تھے۔ غلام محمد جنون کی حدتک سرزمین سے عشق کرتے تھے۔ بی این ایف کے پلیٹ فارم سے ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ اپنے اصولوں کی پاسداری میں وہ کامل انقلابی لیڈر تھے۔ ریاست نے ان پر بہت زیادہ سختیاں کیں لیکن چیئرمین غلام محمد بلوچ اس سے کہیں زیادہ متحرک ہوگئے۔
انہوں نے کہا ایک بار بی ایس او کے اس وقت کے وائس چیئرمین ڈاکٹر امداد نے شکایت کی کہ مجھے کام کرنے سے روکا جارہاہے تو میں اور سنگت ثنا چیئرمین سے ملے اور امداد بلوچ کا گلہ سنایا تو ہنس کر بولے کام کرنے والوں کو کوئی نہیں روک سکتا۔ میں ڈاکٹر کے مسائل سے واقف نہیں لیکن میں آپ لوگوں کو اختیار دیتاہوں کہ جاکر ڈاکٹرامداد سے کہہ دیں کہ آجائیں، پارٹی میں کام کریں، آپ جو کام کرسکتے ہیں کوئی انہیں نہیں روکے گا بشرطیکہ پارٹی آئین و منشور سے باہر نہ جائیں۔
نبی بخش بلوچ نے کہا کراچی، خضدار، کوئٹہ اور تربت میں ریاست بیک وقت ایف آئی آر اور مقدمات کے ذریعے دباؤ بڑھا رہا تھ تاکہ غلام محمد بلوچ زیر زمین چلاجائے لیکن انھوں نے سرکاری حربوں کا مقابلہ کیا اور ان مقدمات اور پیشیوں کو موبلائزیشن کے لئے استعمال کرتے رہے، جہاں بھی پیشی کے لئے لوگوں سے ملتے۔
انہوں نے کہا جب چیئرمین غلام محمد بازیاب ہوئے تو میں اور چیئرمین خلیل بلوچ ان سے ملنے گئے تو چیئرمین خلیل بلوچ نے واجہ سے کہا آپ ٹارچرسیل شدید تشدد اوراذیت سے دوچار رہے ہیں، جسمانی حالت کافی کمزورہے، آپ کچھ مدت کے لئے محفوظ جگہ چلے جائیں۔ غلام محمد نے کہا کہ میں بھی جانتاہوں کہ سرکار مجھے قتل کرے گا لیکن شاید میرے قتل سے بلوچ کو کوئی فائدہ پہنچے گا تو نقصان کی بات نہیں۔