ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی پاکستانی اذیت خانوں میں آٹھ سال مکمل: کل سوشل میڈیا میں کیمپئین چلایا جائے گا
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ 28 جون 2009 کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے بی این ایم کے رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ کا آٹھ سال گزرنے کے باوجود کوئی خبر نہیں ۔ انہیں اورناچ ضلع خضدار سے سرکاری ہسپتال میں دوران ڈیوٹی اغوا کیا گیا۔ ان کی بازیابی کیلئے بی این ایم کے مختلف احتجاجی مظاہروں کے علاوہ فیملی نے کئی مظاہرے اور کوئٹہ سے اسلام آباد پیدل لانگ مارچ اور پاکستانی سپریم کورٹ تک رسائی کرکے پٹیشن دائر کی ہے مگر پاکستانی حکمران بدستور ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت ہزاروں بلوچوں کو اغوا کرکے لاپتہ رکھے ہوئے ہیں۔ بی این ایم کے رہنما غفور بلوچ، رمضان بلوچ سمیت بی ایس او آزاد کے چیئرمین زاہد بلوچ، ذاکر مجید بلوچ اور دوسرے کئی آزادی پسند رہنما سالوں سے پاکستانی اذیت خانوں میں غیر انسانی مظالم کا شکار ہیں۔ مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں بی این ایم کے شہید رہنما لالا منیر بلوچ کی بیوہ کی وفات پر تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لالا منیر اور ان کے خاندان کے قربانیوں کو بلوچ قوم ہمیشہ یاد رکھی گی۔ ان کی بیوہ کی وفات پر ہماری ہمدردیاں لواحقین کے ساتھ ہیں۔ لالامنیر اور غلام محمد بلوچ کی شہادت کے بعد بی این ایم کو درپیش مسائل سے نکال کر ایک دفعہ پھر ایک مضبوط جماعت بنانے میں غلام محمد بلوچ اور لالامنیر کے جانشین فکری دوستوں نے ایک اہم کردار ادا کیا، جو ہنوذ جاری ہے۔ پاکستانی سرکار بی این ایم کو کمزور دیکھنے کیلئے شب و روز مختلف حیلہ بہانوں میں مصروف ہے، لیکن قابض ریاست بی این ایم کے باشعور فکری و نظریاتی دوستوں کو راستے سے ہٹانے میں مسلسل ناکام رہا ہے۔ مرکزی ترجمان نے کہا کہ کل 28 کو ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی گمشدگی کو آٹھ سال مکمل ہونے پر سوشل میڈیا میں ایک آن لائن کمپئین چلایا جائیگا۔ تمام سوشل میڈیا صارفین سے اپیل ہے کہ ہیشٹیگ #SaveDrDeenMohdBaloch استعمال کرکے ڈاکٹر دین محمد کی گمشدگی کو دنیا کے سامنے لانے اور ان کے بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔