بلوچ قوم پاکستان کی درندہ فوج اور چین کی توسیع پسندانہ عزائم کا اپنی قوتِ بازوسے مقابلہ کررہاہے ۔ چی
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی کابینہ کا دوسرا اجلاس چیئرمین خلیل بلوچ کی صدارت میں منعقد ہواجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دومنٹ کی ایستادہ خاموشی کے ساتھ ہوا۔ اجلاس میں سیاسی صورت حا ل ،پاکستان چین تعلقات،سی پیک کے سیاسی ،عسکری ومعاشی اثرات ،پاکستان افغانستان،بھارت ،ایران، روس،پارٹی امور،خارجہ رپورٹ،تنقیدی نشست،آئندہ لائحہ عمل اوربی این ایف کے ایجنڈے زیربحث آئے ۔بلوچستان ،خطہ اور عالمی حالات و واقعات پر تفصیلی غورو غوص کے بعد اہم فیصلے کے گئے ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ ریاستی دہشت گردی ،لیڈرشپ کی ٹارگٹ کلنگ،پارٹی ورکرزاور کیڈرکی شہادتوں کے باوجود پارٹی پروگرام اطمینان بخش اوربہترین نتائج کے حامل ہے کارکنوں اور کیڈرزکی شبانہ روزمحنت اور قربانیوں کے بدولت تحریکِ آزادی اور وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک قومی وانقلابی پارٹی کی تعمیر اور تشکیل کے مراحل طے کررہے ہیں ۔ پاکستانی قبضہ گیریت اور نوآبادیاتی پالیسیوں اورجاری ظلم وبربریت میں روزافزوں اضافہ ہورہاہے لیکن ہمیں پاکستانی ریاستی دہشت گردی ،آتش و آہن کی بارش،شہادتو ں کے سلسلے ،جلتے لٹتے بستی اور گاؤں اورہمہ گیر نسل کُشی کے سیل رواں میں بے انتہا مشکلات اور محدود مواقع میں حالات کی فہم و ادراک ،انتھک محنت اور جدوجہد کے تقاضوں کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان قبضہ گیریت اور مظالم کے تمام ریکارڈ توڑچکاہے ،قومی تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے دشمن تمام ممکنہ حربوں کو شدت سے استعمال کرکے بلوچ قومی حوصلے کا امتحان لے رہاہے لیکن ظلم وبربریت کے اس مشکل دورمیں بلند حوصلے بلوچ قوم کا سرزمین اور قومی تحریک سے وابستگی اوراعلیٰ سیاسی شعورکی مرہون منت ہے اوراس حوصلے اور قومی شعور میں استقلال بلوچ قومی سیاست کا اہم ورثہ ہے۔ بلوچ قوم طویل قبضہ گیریت اور ایک نوآبادیاتی نظام میں غلامانہ اوراستحصالی زندگی بسرکررہے ہیں،معاشی وسائل پر قابض کی کنٹرول ہے ،روزانہ کی بنیادو ں پر آپریشنوں اور تیزی سے جاری نسل کشی سے دوچار بلوچ قوم تاریخ کا مشکل ترین دور سے گزررہاہے ، لیکن تمام مظالم اوراکثرضروریات زندگی قابض ریاست کے منڈی ومارکیٹ اور ریاستی نظام سے وابستہ ہونے کے باوجودقوم تحریک کی حمایت اور عملی تعاون میں پیش پیش ہے یہ رشتہ اور عظیم اعتماد پارٹی سیاست اورپارٹی اداروں کو پروان چڑھانے سے حاصل ہوا ہے ،حالانکہ بہت سے تجزیہ کار بلوچ سماج کو قبائلی اور نیم قبائلی قراردیتے رہے ہیں آج وہ بھی اعتراف کررہے ہیں کہ بلوچ قوم اپنی قومی تحریک آزادی کے ساتھ ایک انقلابی ومعیاری رشتہ اُستوار کرچکے ہیں جس میں نجات دہندہ ایک فرد ،شخصیت یا گروہ نہیں بلکہ پارٹی اور پارٹی سیاست ہے آج بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنے اساسی پروگرام کی تکمیل کے لئے میدان عمل میں اپنے عظیم لیڈرشپ ،کیڈراورکارکنوں کی قربانیاں دے کر اورہر قول اور فعل میں ثابت قدم رہ کرقومی بھروسہ حاصل کیا ہے اورآج بلوچ نیشنل موومنٹ قومی اُمیدوں کی علامت اور نگاہوں کا مرکز بن چکاہے ،پارٹی کے تمام کارکنوں کواِس قومی بھروسے اور اعتماد کا ادراک اور قومی توقعات پر پورا اترنے کے لئے محنت و جانفشانی اور سیاسی فہم و شعور سے اپنی صلاحیتوں کی تعمیر کی ضرورت ہے ۔ چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاکہ بلوچ نیشنل موومنٹ چند اہم خطروں کے بارے میں دنیا کو مسلسل خبردار کرتا چلاآرہاہے جن میں پاکستان کی سرپرستی میں دہشت گردی کی فروغ ،چین کی توسیع پسندانہ پالیسیاں اور جارحیت سرفہرست ہیں مگر عالمی امداد سے محروم تنہا بلوچ قوم اپنی قوتِ بازوسے پاکستان ،پاکستان کی درندہ فوج ،پاکستان کی سرپرستی میں قائم دہشت گردی اور چین کی توسیع پسندانہ عزائم اورجارحیت کا مقابلہ کررہاہے ،اس دوران عالمی طاقتوں نے پاکستان کو نان نیٹوکا اتحادی کا درجہ دے کر پاکستان کو دہشت گردی کے افزائش کرکے پورے دنیا میں پھیلانے کا موقع دیا ۔آج مذہبی جنونیت ،وہابی ازم ،چین کی توسیع پسندانہ عزائم نہ صرف بلوچ کے لئے بلکہ عالمی خطرات ہیں لیکن ان کے مقابلے میں بلوچ تنہااور عالمی امداد سے محروم ہے ۔ چیئرمین خلیل بلوچ نے چین کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین کے بارے میں بلوچ نیشنل موومنٹ گزشتہ تیرہ سالوں سے خبردار کرتا چلا آرہا ہے کہ چین کی توسیع پسندانہ عزائم اور بلوچستان میں جارحانہ پالیسیاں استحصالی منصوبے ،گوادرپورٹ،سی پیک، یہاں عسکری موجودگی ، نیول بیس اورقائم کرنے سے بلوچ قومی نسل کُشی کے ساتھ ساتھ خطے اور عالمی امن کے لئے واضح خطرہ ہیں ،چین وپاکستان کی اتحادبلوچ قومی تحریک کے خلاف مشترکہ کاروائیاں خطے میں اپنی طاقت کا اظہار کے ساتھ ساتھ بھارت کا گھیراؤ،آبنائے ہزمزپرکنٹرول کااشارہ ہے لیکن عالمی طاقتیں اس بارے کوئی واضح پالیسی نہیں کرسکے ۔ بلوچ قوم کو یہ احساس وادراک کرنے کی ضرورت ہے کہ آج پاکستان اور چین مشترکہ دشمن کی صورت میں بلوچ سرزمین پر حملہ آور ہیں ،اگر چین اور پاکستان اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوگئے تو آئندہ چندہی سالوں کروڑوں پاکستانیوں اور لاکھوں چینیوں کی آمد سے بلوچ اپنی سرزمین پراقلیت اور آٹے میں نمک کے برابررہ جائیں گے ،اس لئے بلوچ قوم کے لئے تحریک کا بھرپور حمایت اور عملی تعاون سے جدوجہد کوبڑھانا وقت کی سب سے بڑاتقاضاہے ۔ پاکستان ریاستی سرپرستی میں مذہبی جنونیوں اور جرائم پیشہ عناصرپر مشتمل جتنے بھی پراکسی تنظیموں کی شکل میں طاقت کے مراکزقائم کرچکاہے وہ سب کے سب بلوچ نسل کشی اور قومی تحریک کو کچلنے میں استعمال ہورہے ہیں اس کے ساتھ ہی عالمی دہشت گردتنظیم داعش کو ریاستی سرپرستی میں منظم کیا جارہاہے یہاں داعش اور دیگر شدت پسندوں کو پاکستان ریاست کی سرپرستی کے ساتھ نیشنل پارٹی کا مدد حاصل ہے نیشنل پارٹی آج پاکستان کے ساتھ مل اپنے جرائم میں نئی اضافہ کررہاہے ،نیشنل پارٹی کے مرکزی قیادت کی زیرنگرانی میں ڈیتھ سکواڈز آج بلوچستان بھرمیں بلوچ قوم کی قتل عام میں ملوث ہیں ۔نیشنل پارٹی کے ان جرائم کا بلوچ قوم جلد احتساب کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک عشرے سے واضح کررہے ہیں کہ بلوچ اور بلوچستان عالمی سیاست کا حصہ بن رہاہے اور عالمی سیاست اور عالمی طاقتوں کی مفادات کا جنگ ہمیں بہرصورت متاثر کرتے ہیں اور آج بلوچستان ایک مقناطیسی زون بن چکاہے جہاں بلوچ قومی تحریک اپنی عروج پر ہے اوریہاں ایک سے زائد عالمی طاقتوں کی مفادات کا ٹکراؤاور نکتہ اتصال بلوچ قوم اور قومی تحریک پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان اپنے عظیم محل وقوع ،قدرتی وسائل وخزانوں کے باعث علاقائی وعالمی سطح پرحریص نگاہوں کامرکز چلاآرہاہے سی پیک جیسے استحصالی منصوبے کے توسط سے پاکستان وچین کاگٹھ جوڑاس امرکاواضح ثبوت ہے ایسے نوآبادیاتی منصوبوں کوخاک میں ملانے اورقومی آزادی کی حصول کوممکن بنانے کیلئے بلوچ آزادی پسندقوتوں کااتحادآج وقت کاتقاضہ تو ہے مگراس کیلئے سنجیدگی ،مستقل مزاجی اورکمٹمنٹ کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی معیارکی ضرورت ہے جس میں پارٹی سیاست کو اولیت حاصل ہوناچاہئے کیونکہ قومی وانقلابی پارٹی اور پارٹی اداروں کی عدم تشکیل یا انہیں اہمیت نہ دے کر ہیرارکی یا وراثتی سیاست کو آگے بڑھانے سے پیدا ہونے والے مسائل اور تحریک کے لئے نقصا ن دہ ثابت ہونے والے طریقہ کار ہمیں پارٹی سیاست اور پارٹی اداروں کوشخصی یاگروہی سیاست پر فوقیت دینے کی درس دیتا ہے ،تحریک آزادی سے وابستہ بعض حلقوں نے ماضی میں سطحی مسائل پراتحاداوریکجہتی کے عمل کوسبوتاژکیاجس کے باعث آپس میں دوریوں وبدگمانیوں کاخلیج وسیع ہوگیااب ہم دوبارہ ایسے ناپختگی کامتحمل نہیں ہوسکتے اسلئے اگرکوئی اتحادکی ضرورت کوسنجیدگی سے محسوس کرتاہے تواتحادکیلئے ٹھوس پروگرام وخاکہ پیش کریں اوراپنے ماضی کی غلطیوں کاتدارک بھی کریں۔ چیئرمین خلیل بلوچ نے خطے کی صورت حال پرخطاب میں کہا کہ نہ صرف ہماری خطہ بلکہ عالمی سیاست تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں ،ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخاب دراصل امریکی اداروں میں گزشتہ تیس چالیس سالوں سے زیرتکمیل منصوبوں اورخارجہ پالیسی پراختلافات اورتضادات کے مظہرہے جس میں بلآخرجیت خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی لانے اورنئے اتحادوں کی تشکیل دینے والوں کی ہوئی ہے کیونکہ سوشلزم ،سرمایہ داریت اورشہنشاہیت جیسے نظریات کاتجربہ کرکرکے دنیا تیزی سے نیشنلزم کی طرف بڑھ رہا ہے ،پوری دنیا پر راج کرنے والے امریکہ آج سب سے پہلے امریکہ کا نعرہ لگارہا ہے کیونکہ ہر قوم اپنی قومی مفادات کوتمام رشتوں پر ترجیح دیتاہے ،آج جواہرلعل نہروکا سوشلسٹ انڈیانریندرامودی کی قیادت میں ،لینن کے سوویت یونین کا باقیات روس ولادیمیرپیوٹن کی قیادت میں اورسرمایہ داردنیا کا سرخیل امریکہ ڈونلڈٹرمپ کی قیادت میں نیشنلسٹ ریاستوں میں بدل چکے ہیں کیونکہ نیشنلزم ہی کسی بھی قوم کے لئے عین فطری نظریہ ہے جس میں وہ اپنے قومی مفادات کا بہتر طورسے تحفظ کرسکتا ہے ۔ آج دنیا کے بڑے طاقتوں پرتبدیلی کے خواہاں اور نیشنلسٹ لیڈرشپ حکومت کررہاہے جس سے تبدیلی کے امکانات کا در کھل رہے ہیں لیکن ان طاقتوں کی اپنے اپنے مفادات کی حصول کے لئے ماضی کی نیشنلزم گریزپالیسیوں ،پراکسی اورمذہبی جنونی تنظیموں پرانحصاراورپاکستان جیسے دہشت گردی کی کفیل اور منبع و مرکزریاست کی سرپرستی نے دنیا کے امن وسلامتی اور محکوم ومظلوم قوموں کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے ،اب ان پالیسیوں پر نظرثانی اورنقصانات کی تلافی وقت آچکاہے جودنیا کو ایک بہتر مستقبل دے سکتے ہیں ۔ چیئرمین خلیل بلوچ نے بلوچ قومی تحریک آزادی کو دنیا میں حاصل ہونے والے پزیرائی کے بارے میں کہا کہ دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت کے ورزیراعظم نریندرامودی ،سابق افغان صدرجناب حامدکرزئی اوربنگلہ دیشی وزیر کے بلوچ کے حق میں بیانات خطے میں بلوچستان کی اہمیت ،بلوچ قومی تحریک آزادی کی پزیرائی اور خطے میں ممکنہ تبدیلیوں کا علامت ہے اس کے ساتھ ہی اس بات کااحساس بھی کہ پورے خطے کومشترک دشمن کاسامنا ہے اوردہشتگرد ی کے منبع کا مقابلہ بھی مشترکہ جدوجہد سے ممکن ہے ،ہندوستان اورافغانستان کی قومی سلامتی کے لئے پاکستان سب سے بڑا خطرہ ہے ،بنگلہ دیش پاکستانی مظالم کاایک بڑی تاریخ اور تجربہ رکھتا ہے ۔لہٰذاان ممالک کو بالخصو ص بلوچ قوم کی مشکلات اور تکالیف کا احساس کرکے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ خطے کے بارے میں چیئرمین خلیل بلوچ نے کہاوہابی ازم کی بنیاد پر سعودیہ کی قیادت میں 34چونتیس ممالک کی فوجی اتحاد اور اس میں پاکستان کی غیر اعلانیہ کردار دراصل خطے میں فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے اور مذہب کے نام پر نئی جنگوں کا سبب بن رہا ہے جس سے خطہ مزید فرقہ واریت اور مذہبی شدت پسندی کی لپیٹ میںآئے گا،پاکستان کی موجودگی اور سعودی وترکی کی موجودہ دہشت گردی کو سپورٹ کرنے والے پالیسیوں کی وجہ سے دنیا کبھی بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے نتائج حاصل نہیں کرسکتا ہے ۔ چیئرمین خلیل بلوچ نے اتحاد کے بارے میں کہا ہم ایک انقلابی میعارپر اتحاد کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں اورآج بھی اسی انقلابی معیار پر اتحاد بی آرپی کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں لیکن انقلابی معیار اور اصولی بنیادوں کے بغیر اتحادوں کاانجام ہمیشہ مایوسی اور مزید انتشارکی صور ت میں برآمد ہوگا لہٰذا ہم اپنے تحفظات پر اطمینان اوررشتوں کاگہری مطالعہ اورتجزیہ کے بعد ہی آگے قدم بڑھاسکتے ہیں کیونکہ ہماری اتحاد قوم کو خوش فہمی میں ڈالنے یا کسی بیرونی طاقت کاآشیربادحاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ قومی آزادی کے لئے ہے جس میں قومی مفادات کو بہرصورت مقدم رکھا جائے گا۔ میں پارٹی ورکروں سے کہتا ہوں کہ پاکستان و چین کی جارحیت ،عالمی پالیسیوں کی فہم وادراک کرکے قوم کی سیاسی تربیت جنگی بنیادوں پرکریں کیونکہ عالمی طاقتوں کی تیزی سے بدلتی ترجیحات ،نئی اتحادوں کی قیام،مفادات اورطاقت کے توازن کی جنگ میں ہمیں اپنی لائن اورقومی مفادات کی تحفظ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ،ہم اس خطے میں دنیا کے ساتھ ایک بہترین اتحاد قائم کرسکتے ہیں کیونکہ ایک مذہبی بنیاد پرست اور دہشت گرد ریاست کے جارحیت کا شکار ہونے کے باوجود ہماری قومی اقدار اور سیکولر تشخص برقرارہے، دشمن کی مذہبی جنونیت ہماری قوم کے روایتی مذہبی رواداری کو متاثر نہیں کرسکا ہے حتٰی کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی حصول کے لئے مختلف موقعوں اور خطوں میں مذہبی جنونیوں اور بنیادپرستوں کے ساتھ اتحادقائم کرچکے ہیں لیکن بلوچ قوم نے اپنے تاریخ وتہذیب اورگراں مایہ اقدارکی بدولت ایسی آلائشوں سے پاک جدوجہد کو برقرار رکھا ہے ۔ آج ہم ایک مکمل جنگی حالات سے گزر رہے ہیں،دشمن اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر بلوچ قوم و سرزمین کی تباہی کے پروگرام پر شدت سے عمل پیرا ہے ایسے حالات میں ہماری کام کی رفتار ضرورمتاثر ہوسکتا ہے لیکن بحیثیت پارٹی لیڈر شپ ہمیشہ دشمن کی حکمت عملیوں اور جارحیت کی شدت کو دیکھ کر ہم اپنی قومی حکمت عملی کا تعین کرتے ہیں ،شہادت ،عظیم ساتھیوں کا جدائی ،تباہ کُن آپریشن اورظلم وبربریت آزادی کے جدوجہد کااَٹوٹ حصہ ہوتے ہیں لیکن جدوجہد کو برقراررکھنے اوراس میں نئی توانائی شامل کرنے کے لئے ہمیشہ نئی موثرحکمت عملی اوربلند حوصلے کے ساتھ پارٹی اور پارٹی اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ایک طویل تحریک آزادی پارٹی اور پارٹی سیاست کے بغیر کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ،بلوچ قومی سیاست کی تاریخ میں پہلی بار ہم ادارتی بنیادوں پر سیاست میں ایک معیار قائم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں ۔تاریخ کے اس موڑ پر ہماری ذمہ داریوں میں روز اضافہ ہورہاہے کہ ہم قومی طاقت سے نیشلزم کے نظریے اورانقلابی معیار کی بنیاد پر پارٹی پلیٹ فارم سے جدوجہدِآزادی کواُس عظیم منزل تک پہنائیں جس کے لئے ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر گوشے قربان کردئے ہیں ۔ہزاروں پاکستان کی زندانوں میں غیرانسانی اذیت سہہ رہے ہیں ۔آج دشمن کی مظالم میں شدت خود اس امر کی گواہی دے رہاہے کہ بلوچ قومی تحریک ایک ایسی طاقت اور قومی اعتما دحاصل کرچکاہے جسے شکست نہیں دیاجاسکتا ہے ۔یہ کائناتی سچائی ہے کہ قومی آزادی اورانقلابی تحریک کو دنیا کا کوئی بھی طاقت ختم نہیں کرسکتا ہے ۔اجلاس کے آخر میں اہم فیصلے کئے گئے۔