کولواہ میں بی این ایم ممبر شہید، گڈانی میں ڈیڑھ سو مزدور موت کا منتظر۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ کل پاکستانی فوج نے بالگتر اور کولواہ میں زمینی اور فضائی آپریشن کرکے کئی گھروں کو جلایا اور مال مویشیوں کو ہلاک کیا۔ کڈء ہوٹل ناگ میں گھر میں گھس کر بی این ایم کے ممبر صفیان ولد ابراہیم کو گولی مار کر ہلاک کیا۔ گوادر میں چار لاپتہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کے بعد تین دن میں چار بلوچوں کو قتل کیا گیا۔ ہم ان شہدا کو سرخ سلام اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بلوچ نسل کشی میں عام بلوچ اور سیاسی کارکن یکسان طور پر نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔ صفیان بلوچ کو گھر میں گھس کر بیدردی سے قتل کرنا بلوچ سیاسی جہدکاروں میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ مگر یہ نئی بات نہیں ہے اور بلوچ قوم اپنی حق آزادی سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوگا۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور دنیا کویہ حقیقت تسلیم کرنے پڑی گی۔ پاکستان بھی بلوچوں کو ایک غلام سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں دیتا۔ آزادی کا جد و جہد ہر صورت جاری رکھا جائے گا۔ ترجمان نے کہا کہ بلوچستان کے علاقے گڈانی میں شپ بریکنگ یارڈ پر آتش زدگی اور دھماکوں میں پھسے ڈیڑھ سو مزدوروں کو موت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کوئٹہ میں آٹھ اگست کو وکلاء اور چوبیس اکتوبر کو بلوچ پولیس اہلکاروں کی پاکستان کے پراکسیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد گڈانی میں بلوچ مزدوروں کو جان بوجھ کر موت کی منہ میں دھکیل کر امدادی کاموں میں کوتاہی بھرتی جارہی ہے۔ ایسے واقعات پنجاب میں ہوتے تو آگ بجھانے کیلئے باہر سے ماہرین بلائے جاتے، لیکن بلوچ نسل کشی میں پاکستان تمام حربوں کو استعمال میں لاکر بلوچ قوم کو ختم کرکے بلوچستان پر دائمی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ گڈانی میں دو درجن اموات ظاہر کرنا پاکستان کی اُس پالیسی کا حصہ ہے جس میں لاپتہ بلوچوں کی رجسٹرڈ تعداد کو دو سو قرار دیتا ہے۔ گڈانی واقعہ میں زخمی مزدور بھی بے یار و مدد گار مقامی ہسپتالوں میں طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے موت کا منتظر ہیں۔ جو ایک بدترین انسانی بحران ہے م جس کا ذمہ دار پاکستان کے ادارے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا کو اس خبر کی اشاعت سے روکا جا رہا ہے تاکہ چین اور دوسری ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان کی ناقص اور غیر ذمہ دارانہ رویے کی خبر نہ ہو۔ بلوچستان میں ڈیڑھ سو مزدوروں کی ہلاکت پاکستان کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ترجمان نے کہا کہ اسی طرح 24 ستمبر 2013 کو قیامت خیز زلزلے میں آواران اور کیچ کے متاثرین تک بیرونی امداد کو روکا گیا، یہی گڈانی میں دُہرائی جارہی ہے۔ زلزلہ متاثرین کی خدمت کیلئے حافظ سعید خدمت الخلق اور فوج نے ذمہ داری اُٹھا کر زلزلے سو گنا زیادہ بلوچوں کو قتل، بے گھر اور در بدر کیا۔ ان علاقوں میں زلزلہ ریلیف کے نام پر فوج نے کنٹرول سنبھال کر بلوچ نسل کشی میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عالمی اداروں کو بلوچستان میں مداخلت کرکے امن کی بحالی اور بلوچ جہد آزادی میں اپنا کردار اد
کرنا چاہئے۔