انتہاپسندی سے نجات نیشنلزم میں پنہاں ہے...خلیل بلوچ
ا
س حقیقت سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں سیاست اورمذہب کا ہمیشہ چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔کلیسا ،مسجد ،مندرہمیشہ بادشاہ اور طاقت کے ساتھ مل کر مظلوم ومحکوم کے خلاف دودھاری تلوارثابت ہوئے ہیں ۔ترقی اور تخلیق کی راہوں کو مسدود کرنے میں معاون بن کر شہنشاہی استحصال میں پیش پیش رہے ہیں اورہمیں ہر دور میں مقتدرقوتیں مذہب کا سہارالے کر قتل و قتال کرتے نظر آتے ہیں اوراس میں کسی نے بھی امتیاز روا نہیں رکھا خواہ وہ رومی فیوڈل کا زمانہ ہویا اسلام کی دورِ ملوکیت ۔رومی فیوڈل زمانے میں جہاں کلیسا کا کردار ریاست کو وسعت دینے کے لئے کلیدی ہوتا تھا ،عیسائی مذہب ابتداء میں مظلوم طبقو ں میں پھلا پھولا مگرچوتھی صدی عیسوی میں قسطنطین کی عیسائیت قبول کرنے کے بعد سرکاری مذہب کی حیثیت اختیار کرگئی جس کی وجہ سے رومن کلیسا کے اثرواقتدار میں اضافہ ہی نہیں ہوا بلکہ وہ مغرب کی سب سے بڑی طاقت ور گروہ بن گیا، مغرب کی اس تاریک دور میں کلیسا ہی کی من مانی تھی جو فیوڈل حکمران کی طرح ترقی اور تبدیلی کا دشمن تھا، پادریوں کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ ایسے عناصر سر اٹھا نہ پائیں جن سے کلیسا کے اثرورسوخ میں کمی اور ان کی مذہبی اجارہ داری کوخطرات لاحق ہوں ،مختصر یہ کہ قرون وسطیٰ تک مغرب کے فیوڈل اور کلیسا کا نظریہ ایک تھا سماج میں اصلاح کی مخالف کرتے نظرآئینگے ۔ ہم اسلامی ممالک میں بھی دیکھتے ہیں اسلام کا بھی ابتدائی دور سادگی کا زمانہ تھا جس میں جمہوری انداز نظر آتا ہے ،لیکن جوں ہی شام اور ایران میں فتح ہوئے تو ملوکیت کا دور شروع ہوتا ہے جہاں بادشاہوں مذہبی رہنماؤں نے وقت کے تقاضوں کے مطابق انہیں جائز قرار دیا جس میں وہ یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ بادشاہت کے بغیر ملک انتشار اور خانہ جنگی کا شکار ہوتا ہے جس میں وہ خلافت راشدہ کے بعد پیدا ہونے والی صور ت حال کی دلیلیں دیا کرتے ہیں ،عباسی دور جب زوال پذیر ہوا تو مذہبی رہنماؤں نے فتویٰ جاری کئے کہ اگر کوئی طاقت کے ذریعے کسی خود مختیا ر ملک پر قبضہ کرنا چاہے تو وہ جائز ہے کیونکہ اس کے پاس طاقت موجود ہے ۔ مذہبی مقتدر کے ہاتھوں ڈسے مغربی اقوام نشاط ثانیہ کے بعد کلیسا سے جان چھڑانے میں کامیاب اور دنیا پر راج کے قابل ہوگئے مگر تیسری دنیامیں اپنی معاشی و عسکری مفادات کے لئے پھر مذہب کا سہارا لیا ،کیونکہ ان طاقتوں کو معلوم تھا کہ مذہبی انتہاپسندی کی بیج بو کر ایک ہی معاشرہ کئی ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور اس کی طاقت کبھی بھی مجتمع نہیں ہوتی ہے ۔اسی پالیسی کی جھلکیاں ہمیں افریقہ اور ہندوستان میں بخوبی نظرآتی ہیں ۔ افریقی ممالک میں کلیسا کا مدد اور ہندوستان میں دو قومی نظریے جیسے معاشرے کو تقسیم اور ٹکڑوں میں بانٹنے کے لئے کارگر ہتھیا ر استعمال کئے اور واقعتا وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ہندوستانی معاشرہ نجات کے بجائے ہندومسلم جھگڑوں میں الجھ کر رہ گیا اور برطانوی راج روز بہ روز مستحکم ہوتا چلا گیا،حتیٰ کہ جلیانہ والا باغ جیسے واقعات بھی ہندی معاشرے کو متحد کرنے میں ناکام ہوگئے اور اصل میں یہ سرسید کا مسلمانوں کے لئے کوئی نجات کا نظریہ نہیں بلکہ برطانیہ کی ضرورت تھی جوہندوستان میں دوقومی نظریے کے فروغ کی صورت میں وقوع پذیر ہوا۔جس کا مقصد ہی برطانوی راج کو اپنے قبضے کو طول دینا تھا ،اس کا نتیجہ ایشیاء کے عظیم ملک کے تقسیم کی صورت میں برآمد ہوااور اس خونی تقسیم کا نقصان آج تک یہ خطہ جھیل رہا ہے ۔سرسید کے اس نام نہادنظریے نے نفرتوں کے ایسے بیج بوئے کہ جس کے اثرات آج تک زائل نہیں ہوئے بلکہ آج ان میں تاریخ کی سخت ترین شدت دکھائی دیتی ہے۔ اگر ہم دورجدید بیسویں اور اکیسویں صدی کی سیاست کا مطالعہ کریں جہاں برطانیہ نے مستقبل کے اپنے مفادات اور سوویت یونین کو لگام دینے کے لئے پاکستان کا قیام عمل میں لایاکیونکہ مغر ب پہلی اور بالخصوص دوسری جنگ عظیم کے بعد معاشی حوالے سے کافی کمزور ہوچکا تھا۔ اتحادثلاثہ کی جنگوں کے باوجود سوویت یونین کو مزید قدم جمانے سے ان میں روکنے کی استطاعت نہیں تھی،اس لئے انہوں نے اس خطے میں ایک فرمانبردار اور چوکیدارریاست کی بنیاد ڈالی تاکہ سوویت حکام کو گرم پانیوں تک رسائی سے روک سکے یا کم ازکم تعطل کا شکاربناسکے تاکہ اس عرصے میں مغرب کو دوبارہ تیاری کا موقع مل سکے۔ مغرب کی پالیسی بھی کامیاب ہی رہا ، افغانستان میں سوویت یونین کی ہوس اور گرم پانیوں کے لئے بیتابی نے مغرب کاکام آسان کیا اور مغرب کو یونین سوویت کو نکیل ڈالنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا اور یہ موقع تمام شراکت داروں کے لئے یکساں مفادات کا حامل تھا۔امریکہ ،برطانیہ اور دوسرے سرمایہ دارانہ بلاک کے رکن اور منڈی کے متلاشی ممالک کو کم تنخواہ پرپاکستان جیسے کرایہ دار دستیاب تھے ،پاکستانی فوجی قیادت نے یہ سمجھاکہ ڈالروں کی بارش کے ساتھ ساتھ بلوچ،سندھی،پختون قوم پرستی اور ڈیورنڈ لائن جیسے مسائل ہمیشہ کے لئے قطعی طورپر حل ہوں گے اورکابل دوبارہ کبھی بھی ڈیورنڈ لائن کی بات اُٹھانے کے قابل نہیں ہوگا، ڈیورنڈلائن ایک متنازعہ سرحد کے بجائے محفوظ سرحد بن جائے گااور یہ سرحدپتھر کی لکیرہوگااورنہ ہی یہاں کبھی محکوم قومیں آزادی کی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ اہلِ سعود کو اپنی بادشاہت کو مستحکم کرنے اور کٹر وہابیت کو درآمد کرنے کانادر موقع مل گیا ۔اہلِ سعودکی طویل المدتی پالیسی میں نمایاں تبدیلی آیا ،اور اس نے بڑی تعداد میں وہابیت کی کاشتکاری کی کہ آئندہ ایک صدی تک اہل فارس سے کوئی خطرہ نہ رہے۔ لہٰذا اہلِ سعود نے اپنے خزانے کھول دیئے اورمجاہدسازی کی فیکٹریاں لگ گئیں اور پاکستان کے درمیانی واسطے کے طورپر وارے نیارے ہوگئے ۔فوجی قیادت کے بینک بیلنس آسمان کو چھوگئے ۔قابض پاکستان نے غلام بلوچ کی تحریک کوکچل دیا ،صوفیوں کی سرزمین کی غلامی کو دائمی بنانے کے لئے سندھی معاشرے کے تاروپود کو مذہبی شدت پسندی سے بکھیرکے رکھ دیا ۔اسٹریٹجک معاملات ہمیشہ کے لئے حل ہوگئے ۔امریکہ تو جیتا ہی جیتا کیونکہ اب برفانی ریچھ کسی گہری کھائی میں جاگرا ،اور مغرب میں سوویت نظریات کے پرچارکوں کا قبلہ ڈھل گیا اوروہ سرمایہ داری کے سامنے سرنگوں ہوگئے۔ مگر سب سے بڑاخسارہ صرف افغانستان اورمحکوم اقوام کا ہو ا،اپنی کام نکال کر مغرب نے اس خطے سے منہ موڑکردوسرے محاذوں کا رخ کیا اور یہ خطہ مذہبی جنونیوں کی آماجگاہ بن گیا اوروہ بزعم خود دنیا کو فتح کرنے کے منصوبے تیار کرنے لگ گئے کیونکہ ان کی جنگ کو پوری دنیا نے سوویت یونین کے خلاف جہاد تسلیم کرلیا تھا اوردہشت گردی کی نرسریاں قائم کرنے کے لئے مضبوط بنیاد یں اور بے پناہ مالی وافرادی وسائل فراہم کئے تھے ۔خطے کے قوم پرست چیختے چلاتے رہے کہ مذہبی جنونیت یہاں آباد اقوام کے لئے تباہی کا سامان کررہا ہے۔ اور غیور،بہادر،جفاکش ،ہندوکُش کا پاسبان قوم کا وطن بارود ایک ڈھیر بن گیا جولاوے کی صورت اختیار کرچکا ہے روز کہیں نہ کہیں آگ اگل دیتا ہے ،جس کی زد میں نہ صرف افغان آرہا ہے بلکہ آس پاس کے اقوام بھی شدیدمتاثر ہوئے۔ سوویت یونین کے بعد کوئی بڑا خطرہ نہیں، لہٰذا مغرب نے پراکسی بناکر کام چلانے کا گُر آزمانا شروع کیا اور اس مقصد کے لئے مذہب کا استعمال سب سے آسان فارمولہ ٹھہرا۔پسماندگی،جہالت اور استحصال کے شکار قوموں میں انجانی خوف کے شکار انسان کی اس کمزوری سے مذہبی مقتدر قوتوں نے خوب خوب فائدہ اٹھایا اورچھوٹے بڑے مذہبی اقتدار کے لئے راہ ہموار کیا جوتیسری دنیا میں استحصال کا آج بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ انہی مغربی پالیسیوں کے پھل کے طورپر11ستمبر کا واقعہ ہوا،یک قطبی دنیا کے سپرپاورکے جڑوان برج انہی جہادیوں کے ہاتھوں اُڑائے گئے ۔تین ہزار سے زائد بے گناہ انسان مارے گئے اور اس واقعے کے مجرموں کو انجام تک پہنچانے کے لئے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کی اور مغرب سے اس بار بھی پاکستان کا سہارا لیا اور اسے اتحادی کا درجہ دے دیا،اس جنگ میں افغانستان پر قابض جنونی بظاہر منظر سے غائب ہوگئے ۔مگر اس جنگ میں مغرب کے non NATO allyپاکستان نے دوغلاکھیل کھیل کر مغرب سے دو دو ہاتھ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس پورے دورانیے میں صرف بلوچ خبردار کرتے رہے کہ مغربی اقوام کے بے پناہ فوجی واقتصادی امدادکوپاکستان بلوچ قوم کے خلاف استعمال کررہا ہے اور اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنی نتائج کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتا بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہوگامگر مغربی اقوام نے کبھی اس کا صحیح رسپونس نہیں دیا اور بلوچ کی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔اس دوران پاکستان نے نہ صرف بلوچ نسل کُشی کے سلسلے میں اضافہ کردیا بلکہ مغربی اقوام کو اندھیرے میں رکھ کرطالبان اور مذہبی جنونیوں کی افزائش کرکے پورے خطے کو بارود کے ڈھیر پہ لاکھڑاکیا۔ پھر عراق کی باری آئی صدام کی ظالمانہ ڈکٹیٹر شپ کے شکار اقوام کے لئے امریکی حملے آزادی کے نوید تھے۔ ہم سب نے دیکھا کہ صدام کے جبر سے بیزار عوام نے امریکہ کو خوش آمدید کہا اور جمہوریت اور مظلوموں کے قاتل صدام اپنی انجام کو پہنچ گیا۔لیکن مغرب نے اپنی بنیادی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں لائی بلکہ مذہبی شدت پسندی سے اپنے مقاصدنکالنے اوراپنے دشمنوں کومذہبی جنونیوں کے ذریعے گھیرنے کا مکروہ دھندہ جاری رکھا ،اس سے شہہ پاکر مذہبی جنونیوں نے پوری دنیا میں اپنی شیطانی جال پھیلادیا۔ آج ایشیاء ،افریقہ سمیت دنیا کا کوئی خطہ ان سے محفوظ نہیں ہے ۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ دنیا ایک جانب ستاروں پر کمندیں ڈال رہاہے تو دوسری جانب سیاست یا سیاسی مقاصد کو پوری کرنے کے لئے یہی ترقی پسنداور ترقی یافتہ دنیا مذہبی جنونیت کو فروغ دینے کی صورت میں دکھائی دیتی ہے اورمغرب اور سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ریاستوں کی ان بے رحمانہ پالیسیوں کی وجہ سے آج جنوبی ایشیاء مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقی ریاستیں پندرھویں صدی کی یورپ کی تصویر پیش کررہی ہے جہاں یورپ تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا کیونکہ اس دور میں مذہب کے اجارہ دار ریاستی امورمیں برائے راست ملوث تھے جو مغرب کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ جب کہ آج مغرب تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے تیسری دنیا میں اپنے ماضی کو دہرانے کی کوشش کررہی ہے یایہ کہ مغرب نے جس عفریت سے خود نجات پالی مگر اس کے نیش نکالے بغیر اسے دنیا سے مدمقابل ہونے کے لئے چھوڑ دیا۔ شاید مغرب یہ سمجھ رہا تھا کہ اس میں اور مغرب میں فاصلہ طویل اور درمیان میں جدیدعسکری ٹیکنالوجی کا دیو ہیکل حصار کھڑی ہے مگر دہشت گردوں نے سب اندازے اورفاصلے مٹا دئیے۔۔۔۔۔اور 9/11کا واقع ہوا جہاں تین ہزار سے زیادہ انسان لقمہ اجل بن گئے۔۔۔ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ مغرب اپنی پالیسیوں کا ازسرنوجائزہ لے کر ایک بہتر اور انصاف پر مبنی حکمت عملی تیار کرتی جس سے یہ دنیا دہشت گردوں سے ہمیشہ کے لئے نجات پانے کے قابل ہوجاتامگر مغرب اس راستے پر گامزن رہا جس میں ایسی واقعات کی بیج بوئی گئی جس سے دنیاکا کوئی خطہ محفوظ نہیں ہے ۔لندن واقعات ہوں یا فرانس ،بیلجیم وغیرہ میں ہونے والے انسانیت سوز دھماکے جہاں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے جن کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داعش یا اس جیسے تنظیموں نے اتنی طاقت کہاں سے اور کیسے حاصل کی؟ کیایہ اب بھی مغربی پالیسیاں ہیں جبکہ اب تو سوویت یونین بھی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسی عالمی طاقت موجود ہے جس سے مغرب خوفزدہ ہوتو پھر وجوہات کیا ہیں ؟ اپنی انہی پالیسیوں کو رائج کرنے کی وجہ سے مغربی دنیا آج بذاتِ خود شدت پسندی کی لپیٹ میں آچکا ہے یا آرہاہے۔ اب بھی اگر مغرب نے اس حوالے سے منطقی فیصلے نہیں کئے تو یہ تباہی بہت جلد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی۔ جو پالیسیاں مغربی دنیا کے حکمرانوں یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملی بھگت سے بن رہی ہیں ان کے ان غیر انسانی حرکتوں کو روکنے کے لئے مشرقی و مغربی عوام ،اقوام متحدہ اورانسانی حقوق کے دیگر علمبردارتنظیمیں کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ دنیا کا کوئی ذی شعور انسان آج یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں مغرب کو یہ معلوم نہ ہو کہ داعش القاعدہ یا طالبان جیسی کتنی تنظیمیں، کن ممالک کی پشت پناہی میں کام کررہے ہیں۔ اوروقت نے بہت جلد ہی بلوچ کے موقف کی صداقت کو دنیا کے سامنے آشکارا کردیا ہے کہ دہشت گردی کا اصل منبع کہاں ہے اور اس کی ٖفروغ میں نمایاں کردار کس کا ہے ؟ کیا مغرب کے پاس اس سے بہتر حکمت عملی ممکن نہ تھی اور بہ امر مجبوری مغرب کو ان مذہبی شدت پسندوں کا سہارا لینا پڑا،دستیاب حقائق اس کی نفی کرتے ہیں مغربی پالیسیوں کے جائزے سے ایک بات باصراحت ہمارے سامنے آتی ہے کہ مغرب نے ہمیشہ وسائل اور طاقت کے توازن کی جنگ میں تیسری دنیا کے امن اور قومیتوں کے حقوق کو داؤ پر لگا دیااور آج کے مغرب کی پالیسیوں کا محور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی منافع خوری اورتیسری دنیاکے وسائل کوکسی بھی قیمت پر ان کے دسترس میں دینا ہے اور مذہبی شدت پسندچونکہ اس کھیل میں اچھے پارٹنر ثابت ہوئے ہیں اور اس کے مقابلے میں قوم پرست اپنی قومی وسائل اور قومی خودمختیاری کے معاملے میں کسی سمجھوتہ بازی پر آسانی سے تیار نہیں ہوتے ہیں ا س لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغرب نے ہمیشہ قوم پرستوں کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی ہے مگر جلد یا بدیر دنیاکو اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ آج دنیا اور بالخصوص اس خطے میں امن کی بحالی کاواحد اُمید اس خطے کی غلام اقوام کی آزادی سے جڑی ہے۔ اور ان غلام اقوام کی آزادی کے بغیر نہ تو مذہبی شدت پسندی کو لگام دیا جاسکتا ہے اور نہ امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال کُردہیںآج ان مذہبی شدت پسندوں کے سامنے عالمی طاقتیں بے بس دکھائی دیتی ہیں لیکن کردوں نے دنیا کے مدد کے بغیر ان کا مقابلہ کیا اور ا ب تک پورے خطے پر چھاجانے کے باوجود مذہبی شدت پسندکردوں کی سرزمین پر قدم جمانے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی وجہ بھی سمجھ میں آنی چاہئے کہ قوم پرست اپنی تاریخ اور ایک تہذیب کے مالک ہیں ،ان کا اپنی سرزمین سے رشتہ فطری اورمستحکم ہوتاہے اور وہ دنیا میں تمام انسانوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملات کرنا چاہتے ہیں اور وہ رنگ و نسل اور مذہب و عقیدہ کے نام پر انسانی خون بہانے کے بالکل حق میں نہیں ہیں ۔ آج ایک طرف پوری دنیا کی جدیدترین فوجی وعسکری ٹیکنالوجی داعش کے خلاف برسرپیکار ہے لیکن کامیابیوں کا تناسب انتہائی کم ہے لیکن کردوں کی حالیہ کارکردگی کو دیکھیں تو داعش کے خلاف ان کی کامیابی روزروشن کی طرح عیاں ہے جہاں انھوں نے نہ صرف مذہبی انتہا پسندوں کواپنے علاقوں میں داخل ہونے سے روکا بلکہ ا نہیں کئی محاذوں پہ شکست سے دوچار کیا ۔یہ قوم پرستی کی عظیم طاقت ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم 1971ء میں بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی خون آشام کاروائیوں کو دیکھیں جہاں انھوں نے مذہب کے نام پرجماعت اسلامی،الشمس و البدرجیسی تنظیموں کے ذریعے بنگالی عوام کے قتل عام کے باوجودکامیابی حاصل نہیں کی وجہ صرف یہی تھی کہ بنگلہ دیشی عوام قومی ریاست کے حصول اور قومی جذبے سے سرشار میدان عمل میں پاکستان کی ظالمانہ کاروائیوں کے خلاف برسر پیکار تھے اوراسی جذبے نے ان کی کامیابیوں میں کلیدی کردار ادا کئے ۔ مگر آج بھی دنیا کا رویہ قوم پرستوں اور قومی ریاستوں کے تشکیل میں معتصبانہ ہے اور قومی ریاستوں کے تشکیل میں معاونت کے بجائے ان پر قابضین کی نہ صرف بے پناہ فوجی ومالی مدد کررہا ہے بلکہ ان کی نسل کُشی میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہا ہے ۔ہمیں انسانی جان کے ضیاع پر بے حد افسوس ہے۔ ایساعمل دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں مگر کیا دنیا کو بلوچستان میں انسانی لہوکی بہتی دریا نظرنہیں آتی ہے؟ کیا مغرب کو توتک کی اجتماعی قبریں نظرنہیں آتی ہیں؟ ۔۔۔کیا پچیس ہزار سے زیادہ لاپتہ بلوچ انسان نہیں ہیں؟ ان تمام حقائق کے باوجودکیا یہ مغرب کی پالیسیوں کی ناکامی یا اصل ذمہ داروں کو کھلی چھوٹ دینا نہیں ہے کہ ایک جانب پاکستان مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی کے طورپر بے پناہ امدادوصول کررہا ہے اور دوسری جانب یہی پاکستان پوری دنیا کو مطلو ب اسامہ کو پنا ہ دیتاہے۔اس خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا کردار حافظ سعید کھلے بندوں عوامی اجتماعات سے خطاب کرتاہے اور مولوی عبدالعزیز امام جامع حفصہ کا تحریری خط داعش کے نام یا بلوچستان میں بلوچ جہد کو کاؤنٹر کرنے کے لئے ہزارہ برادری کا سفاکانہ قتل عام یا ذکریوں کے مقدس مقامات پر دہشت گرد حملے ریاست پاکستان مغرب کے آنکھوں کے سامنے بڑی دیدہ دلیری سے کررہا ہے ۔قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ آج کی مہذب دنیا حقائق سے چشم پوشی کرکے اپنے آپ کو ایسے اقدامات سے بری الذمہ قرار دے رہے ہیں جن کی وجہ سے ایسے عناصر پیدا ہورہے ہیں جنہیں دنیا اپنی مفادا ت اور بحیثیت پراکسی استعمال کررہی ہے جیسے کشمیر میں جہادی گروپ ،افغانستان میں طالبان ،شام میں مولوی عبدالعزیز کے نام سے چلنے والی یونٹ ،یا ایران میں جنداللہ ،یہ سب پاکستانی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال ہورہے ہیں ۔ مگر مہذب دنیا کی پالیسیاں ہمیشہ اس ضمن میں ناکام ہی رہے ہیں ۔9/11کے بعد القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکہ اور اس کی اتحادیوں کی افغانستان اور عراق میں کاروائی سے مذہبی شدت پسندی میں کمی واقع ہونے کی بجائے ان کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہوا کیونکہ انیس سواسی کی دہائی میں مذہبی شدت پسندی افغانستان تک محدود تھی جہاں پاکستان،امریکہ اور سعودی عرب کے مقاصد کی تکمیل انہی کے تیار کردہ مجاہدین جو روس سے برسر پیکار تھے تاکہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جائے اور امریکہ اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سینٹرل ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل ہو۔ پاکستان کے اپنے مفادات تھے جس میں وہ افغانستان کو ہتھیانے کا سوچ رہا تھا جبکہ سعودی اس خطے میں وہابیت کوفروغ دینے کے درپے تھا لیکن سوویت یونین کے جانے کے بعد جونہی طالبان آئی ایس آئی کی توسط سے مستحکم ہوگئے تو انہوں نے امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کیا اور 96ء میں امریکہ کے خلاف جہاد کی تیاری کرنے لگے۔ اس کی وجہ پہلی عراق جنگ کے دوران اسامہ اور امریکہ کے درمیان تلخ دور شروع ہوچکاتھا جس کی وجہ سعودی حکومت کا صدام کے خلاف امریکہ کی کھل کر حمایت تھی لیکن اصل محرکات کچھ اور تھے جس میں پاکستان براہ راست شامل تھا جہاں القاعدہ اور طالبان ان کے بریگیڈکے طور پر کام کررہے تھے۔ اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل حمید گل کے یہ الفاظ کہ ’’یہ جدید دور میں پہلا اسلامی بریگیڈ ہے ،کمیونسٹوں کے اپنے بین الاقوامی بریگیڈ ہیں ،مغرب کے پاس نیٹو ہے ، مسلمان متحد ہوکر ایک مشترکہ محاذ قائم کیوں نہ کریں ‘‘جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ یہ پاکستانی پالیسیوں کا تسلسل تھا اور وہ اس خطے میں خلافت قائم کرنا چاہتے تھے یاچاہتے ہیں ،جس کی باگ ڈور وہ اپنے ہاتھ لینا چاہتے ہیں جس میں ہمسایہ اور پرامن ممالک میں مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے کر انہیں غیر مستحکم بناناتاکہ آگے چل کر وہ بھی پاکستان کی باج گزاری قبول کریں جیسے 1999ء میں اسامہ بن لادن کی طرف سے حرکت الجہاد کو مذہب انتہا پسندی کو فروغ دینے کے لئے ایک ملین ڈالر دینا تاکہ بنگلہ دیش بھی افغانستان بن جائے ۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان یا ان جیسے دیگر ممالک کو جو ایسے شدت پسند تنظیموں کے افزائش میں براہ راست ملوث ہیں روکنے میں کامیاب کیوں ہورہے ہیں کیا دنیا محض اس امید پہ بیٹھا ہے کہ پاکستان اس ضمن میں مخلص ہوکر دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی کرے گا کیونکہ پاکستان اپنی عیاریوں کی وجہ سے کبھی سوات آپریشن تو کبھی ’’ضربِ عضب‘‘ جیسے ڈرامے رچاتا ہے جب کہ حقیقت حال یہ ہے پاکستان یہ ڈرامے صرف مزید امداد کے لئے کرتا ہے تاکہ اپنے ریاست کو سہارا دے کیونکہ پاکستان کی معیشت مذہبی شدت پسندی پرچل رہا ہے دوسری بات یہ ہوسکتی ہے کہ مغرب اپنے سرمایہ دارانہ نظام کو استحکام دینے کے لئے مذہبی شدت پسند تنظیموں اور پاکستان جیسے ریاستوں کی پشت پنا ہی کررہی ہے اگر مغرب نے آج اپنی خارجہ پالیسیوں پہ نظر ثانی نہیں کی تونہ جانے آنے والے دنوں میں کتنے 9/11،ممبئی دھماکے ،پیرس جیسے واقعات رونما ہوں گے ۔ انڈیا کے خلاف کشمیرمیں اپنے پراکسی تنظیموں اورایران میں مذہبی شدت پسند گروہ جن میں جنداللہ اور جیش العدل جیسی تنظیموں کا پروان چڑھنا ،ان کی روک تھا م کے لئے انڈیا اور ایران کے پاکستان کے خلاف طویل خاموشی دونوں ممالک کی استحکام کے لئے شدید خطرہ پیدا کرچکاہے ۔انڈیا کے وزیراعظم جناب نریندرامودی کی نئی پالیسی خطے میں نئے امکانات کے ظہور میں کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر انڈیا اس پالیسی پر نہ صرف قائم اور گامزن رہے بلکہ پوری دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرے کہ پاکستان کی وجود مظلوم قوموں کی وجود اور آزادی اور دنیا کے امن و سلامتی کا سب سے بڑادشمن ہے ۔ہمسایہ ممالک کو بھی آج اس غیر فطری ریاست کے خلاف ردعمل ظاہر کرنا چاہئے اور مذہبی شدت پسند ی کی روک تھام کے لئے ان ممالک سمیت مغرب کو آج یہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے قومی ریاستوں کے فروغ کے عمل میں کردار ادا کریں کیونکہ گزشتہ چند سالوں کی کوششوں سے مغرب یا دیگر ممالک نے مذہبی شدت پسندی کے خاتمے یا ان کی روک تھام کے لئے سب بے سود اور بے نتیجہ رہے اور انہیں ان میں کسی قسم کی کامیابی نہیں ملی بلکہ ان کی ان کاروائیوں کی وجہ سے دنیا مزید عدم استحکام ہوتا چلاگیا۔ آج کے دور میں بھی ہم دیکھیں جہاں قوم پرستی کے جذبات فروغ پارہے ہیں وہاں مذہبی شدت پسندوں کے لئے دائرے تنگ ہورہے ہیں جن کی واضح مثال کردوں کی حالیہ کامیابی اور بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کا فروغ نہ پاناہے حالانکہ پاکستان بڑی شدومد کے ساتھ بلوچ جہد کو کاؤنٹر کے لئے بلوچستان میں مذہبی شدت پسندگروہوں کو استعمال کررہی ہے اوریہ سلسلہ بھی نیا نہیں ہے ،جب ستر کی دہائی کے بعد 1986ء میں بلوچستان میں آزادی پسندوں نے ٹھکانے بنانے شروع کئے تو اس کے ردعمل میں پاکستان نے کوئٹہ میں جون 86ء کا واقعہ جو ہزارہ برادری کے خلاف تھا سرانجام دیا ،جس کی کمان اس وقت کے حاضرسروس پولیس آفیسر ہمایوں جوگیزئی کو سونپ دی گئی تھی یہ تسلسل بھی آج بھی آئی ایس آئی کے سربراہی میں تیزی سے جاری ہے لیکن اس تیس سالہ دور میں بھی ریاست کو وہ کامیابیاں حاصل نہیں ہوئیں جس کی وہ توقع کررہی تھی اسی طرح عراق وشام جہاں کردوں کی آبادیا ں ہیں مذہبی شدت پسندوں کو پنپنے کا موقع نہیں مل رہا۔ حاصل بحث یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر تجزیہ نگارمذہبی دہشت گردی کے بارے میں متفقہ رائے رکھتے ہیں کہ اس کے فروغ میں مغربی یا خصوصاََ عالمی طاقتوں کی پالیسیاں ہیں اورآج مذہبی شدت کو کاؤنٹر کرنے کے لئے مضبوط عزم کے ساتھ ساتھ انصاف پر مبنی حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔کیونکہ محض مغربی دنیا طاقت کے بل پر اس دیو پر قطعی قابو نہیں پاسکتا جب کہ اس کی اصل وجوہات اور مراکز قائم و دائم ہوں ۔دنیامیں مذہبی دہشت گردی سے انسانیت کو درپیش خطرات سے نکالنے کے لئے مہذب دنیا اور دانشور اپنا کردار اداکرتے ہوئے عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ پر زور دیں کہ دہشت گردی کے اصل مرکز پاکستان کے خلاف فوری اور موثر کاروائی کریں اوراس خطے میں محکوم اقوام کی آزادی کو تسلیم کریں اس دور میں صرف نیشنلزم ہی ایک ایسا جذبہ اور فلسفہ زندگی ہے جس میں توسیع پسندی اور انسانی خون سے ہولی کھیلنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگر آج بھی اس صورت حال سے اچھی طرح نہیں نمٹاگیا اور اس انسانیت کُش نظریے کے خلاف قومی نظریوں کے لئے اقدامات اٹھائے نہیں گئے شاید انسانی تاریخ کو کربناک صورت حال سے نکالناممکن نہ ہو سکے جس کے لئے یقیناًمہذب دنیا تاریخ میں جوابدہ ہوگا۔